فیض احمد فیض اور محمود درویش دونوں ہی عظیم شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں مزاحمت، جلاوطنی اور بیگانگیت کے موضوعات کو بھرپور طریقے سے بیان کیا ہے۔ دونوں کی شاعری میں انفرادیت اور گہرائی ہے، اور دونوں شاعروں نے اپنے عہد کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو شاعری کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ ان کی شاعری میں ان موضوعات کا تقابلی مطالعہ ہمیں انسانی جدوجہد، آزادی کی تڑپ اور جلاوطنی کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ فیض احمد فیض نے اپنے دور کی سماجی اور سیاسی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی شاعری میں مزاحمت کا پیغام بہت واضح ہے، خاص طور پر وہ اپنے ملک پاکستان میں حکومتی ظلم، آمریت، اور سماجی ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کی مشہور نظم “نہ تھا کچھ تو کچھ بھی نہیں تھا، ابھی کچھ بھی نہیں ہے، جو کچھ ہے تو کچھ نہیں ہے” مزاحمت کے تصور کو نمایاں کرتی ہے کہ اگرچہ حالات مشکلات سے بھرپور ہیں، مگر مزاحمت کے ذریعے ہی تبدیلی ممکن ہے۔ فیض کی شاعری میں مزاحمت کا مفہوم صرف سیاسی نہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی نظر آتا ہے۔