اردو ناول میں نفسیاتی شعور کی موجودگی اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب کرداروں کی داخلی کیفیات، لاشعوری خواہشات، ذہنی کشمکش، اور ماضی کے تجربات کو محض بیانیہ کے ذریعے نہیں بلکہ اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ قاری کردار کے باطن میں جھانک سکے۔ اردو ناول نے ابتدا میں سماجی، سیاسی، اور اخلاقی مسائل کو موضوع بنایا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن اور شعور کے پیچیدہ مسائل کی طرف بھی توجہ دی گئی۔ بیسویں صدی کے وسط میں نفسیات کے علم کی ترقی اور مغربی ادب میں شعور کی رو (stream of consciousness) کی تکنیک کے اثرات اردو ناول میں بھی محسوس کیے جانے لگے۔ خاص طور پر جب فرائڈ، یونگ اور ایڈلر کے نظریات نے ادب کے میدان میں گہرا اثر ڈالا تو اردو ناول نگاروں نے بھی کرداروں کے ذہنی و شعوری پہلوؤں کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔
نفسیاتی شعور کا مطلب یہ ہے کہ کردار کو اس کے ظاہری افعال و اقوال کے بجائے اس کے باطن، اس کی یادداشتوں، خوف، خواہشات، الجھنوں اور اندرونی تضادات کے ساتھ دکھایا جائے۔ اس شعور کو اجاگر کرنے میں علامتی سطح پر خواب، خاموشی، غیر منظم مکالمہ، اور وقت کا غیر خطی بہاؤ اہم تکنیکی وسائل بنے۔ قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں ماضی اور حال کے ملاپ، کردار کی اندرونی کشمکش، اور تہذیبی یادداشت کے عناصر کو نفسیاتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ اس کا بہترین نمونہ ہے، جہاں کردار صدیوں کے فاصلے پر رہ کر بھی شعوری طور پر ایک تسلسل میں جڑے ہوئے ہیں۔
انتظار حسین نے بھی نفسیاتی شعور کو علامتی انداز میں پیش کیا۔ ان کے کردار محض تاریخ کے اسیر نہیں بلکہ ماضی کی یادداشت اور لاشعور کے بوجھ تلے دبتے ہوئے کردار ہیں جو وقت اور وجود کے بھید کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا ناول ’’چاند گہن‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے، جہاں خواب اور بیداری، حقیقت اور فسانہ ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں، اور قاری کو کردار کی ذہنی الجھنوں کا تجربہ براہ راست حاصل ہوتا ہے۔
عبداللہ حسین کا ’’اداس نسلیں‘‘ بھی نفسیاتی شعور کے حوالے سے اہم ناول ہے، جہاں راجہ صاحب اور نعیم جیسے کردار اپنی داخلی تنہائی، شکست خوردگی، اور محرومیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ ناول سیاسی آزادی کی کہانی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ افراد کی نفسیاتی شکست اور تنہائی کا نوحہ بھی ہے۔ کرداروں کی خاموشی، غیر یقینی رویے، اور خود سے بے خبری ان کے اندرونی انتشار کو ظاہر کرتی ہے، جسے مصنف نے گہرائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
نیاز فتح پوری اور عزیز احمد نے بھی اردو ناول میں جنسی نفسیات اور جذباتی اضطراب جیسے موضوعات کو داخل کیا۔ ان کے کردار محض اخلاقی اقدار یا سماجی دباؤ کے تحت فیصلے نہیں کرتے بلکہ ان کے فیصلوں میں لاشعور، احساسِ جرم، اور اندرونی کشمکش کی جھلکیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ عزیز احمد کے ناول ’’گمان کا ممکن‘‘ اور ’’شبنم‘‘ جیسے بیانیے کردار کے باطن کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہاں کردار کی نفسیاتی الجھنیں، خواہشات، شکستیں اور تسکین کی تلاش مرکزی تھیم بن جاتی ہے۔
نفسیاتی شعور کے اظہار میں خواتین ناول نگاروں کا کردار بھی قابل ذکر ہے۔ بانو قدسیہ کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ میں اخلاقی اور روحانی اقدار کے تناظر میں کرداروں کی ذہنی کیفیت، ان کے خوف، اور ناکامیوں کو گہرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ سیمی، قیوم، اور آفتاب کے کرداروں کے ذریعے بانو قدسیہ نے یہ دکھایا کہ انسان کا لاشعور کیسے اس کے افعال اور فیصلوں کو متأثر کرتا ہے، اور کس طرح شکست خوردہ خواہشات اور احساسِ محرومی کردار کو نفسیاتی تنزلی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
نفسیاتی شعور کی تکنیک میں زبان کا استعمال بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اردو ناول نگاروں نے بعض اوقات غیر مربوط جملے، متضاد بیانات، داخلی مکالمہ (interior monologue)، اور خاموشی کو کردار کی ذہنی کیفیت کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ شعور کی رو جیسی تکنیکیں، جن کا آغاز مغربی ادب میں ورجینیا وولف، جیمز جوائس اور ولیم فاکنر نے کیا، اردو میں بعض جدید ناول نگاروں کے ذریعے مستعار لی گئیں اور مقامی تناظر میں استعمال کی گئیں۔
اردو ناول میں نفسیاتی شعور کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ ادب صرف معاشرتی یا سیاسی بیانیہ نہیں بلکہ انسانی ذہن اور احساسات کا آئینہ بھی ہے۔ جدید اور مابعد جدید دور کے اردو ناول نگاروں نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کردار کے داخلی تضادات، ذہنی کرب، اور لاشعوری میلانات کو فنی طور پر اس طرح پیش کیا کہ قاری نہ صرف کردار کو دیکھتا ہے بلکہ اس کے باطن کو محسوس بھی کرتا ہے۔ اس اندازِ نگارش نے اردو ناول کو محض کہانی یا بیانیہ کے فن سے نکال کر ایک فکری، فلسفیانہ، اور نفسیاتی تجربہ بنا دیا۔
یوں نفسیاتی شعور اردو ناول کی فنی پختگی، گہرائی، اور معنویت کا ایک اہم پہلو بن چکا ہے جو اس فن کو نئی وسعتیں اور امکانات فراہم کرتا ہے۔ کردار کے ذہن میں جھانکنے، لاشعور کی تہوں کو ابھارنے، اور داخلی دنیا کو بیانیے کا موضوع بنانے کا عمل اردو ناول کو عالمی ادب کے ہم پلہ بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔