کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو شعرأ و ادبا کی خود نو شتيں 1990 تک تحقيق و تنقيد کی روشنی ميں

اردو ادب میں خودنوشت سوانح عمری ایک ایسی صنف ہے جس کے ذریعے اہلِ قلم نہ صرف اپنے ذاتی تجربات، مشاہدات اور جذبات کو بیان کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے عہد، معاشرت، سیاست، ادبی ماحول اور ثقافتی رویوں کا آئینہ بھی پیش کرتے ہیں۔ خودنوشت کا بنیادی محرک ذات کی بازیافت ضرور ہوتا ہے، مگر اس کا کینوس ہمیشہ فرد سے بڑھ کر سماج اور تاریخ تک پھیلتا ہے۔ 1990 تک اردو زبان میں متعدد شعرا اور ادبا نے خودنوشتیں لکھیں، جنہوں نے تحقیق و تنقید کی دنیا میں گراں قدر مواد فراہم کیا۔ ان خودنوشتوں کے مطالعے سے محض فرد کی نفسیات اور زندگی کی پیچیدگیوں کا سراغ نہیں ملتا بلکہ یہ ہمیں اردو ادب کی تہذیبی اور فکری تاریخ کی جھلک بھی دکھاتی ہیں۔ اردو خودنوشت کا ارتقائی سفر سر سید احمد خاں اور مولانا حالی جیسے ادبا کی تحریروں سے شروع ہوتا ہے، جنہوں نے اگرچہ باقاعدہ خودنوشتیں نہیں لکھیں، لیکن ان کی تحریروں میں خودنوشت کے ابتدائی نقوش ضرور ملتے ہیں۔ بعد ازاں مولوی نذیر احمد نے اپنی زندگی کو جزوی طور پر بیان کیا، تاہم اردو میں باضابطہ خودنوشت نگاری کا آغاز مولانا شبلی نعمانی اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے اہلِ قلم سے ہوا جن کی تحریریں خودنوشت اور سوانح کی سرحدوں کو چھوتی ہیں۔ مگر اردو شعرا اور فکشن نگاروں کی مکمل خودنوشتیں بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے بعد تیزی سے سامنے آئیں۔ خودنوشت کے اس رجحان کو ترقی دینے میں پریم چند، رشید احمد صدیقی، جوش ملیح آبادی، قدرت اللہ شہاب، اور مختار مسعود جیسے مصنفین کی کاوشوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ان خودنوشتوں میں صرف ذاتی واقعات و حالات کی روداد نہیں بلکہ ان میں تخلیقی تجربات، ادبی تحریکات، سیاسی انقلابات، اور معاشرتی تغیرات کی بھرپور تصویر کشی ملتی ہے۔ جوش ملیح آبادی کی خودنوشت ’’یادوں کی بارات‘‘ اردو خودنوشت نگاری میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جوش نے نہایت بے باکی، خلوص اور فنی حسن کے ساتھ نہ صرف اپنی شخصیت کو عیاں کیا بلکہ پورے برصغیر کی شعری اور سیاسی تاریخ کو اس انداز سے رقم کیا جو محض ایک فرد کی داستان سے آگے نکل کر اجتماعی حافظے کا روپ دھار لیتی ہے۔ جوش کی خودنوشت میں ان کے مشاہدات، تعلقات، ادبی معرکے، اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف ان کے خیالات جس تفصیل اور قوت سے بیان ہوئے ہیں، وہ اس تحریر کو صرف سوانح نہیں بلکہ ایک فکری اور تہذیبی دستاویز بنا دیتی ہے۔ اسی طرح پطرس بخاری، جو زیادہ تر مزاح کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، نے اگرچہ باقاعدہ خودنوشت نہیں لکھی، مگر ان کے خطوط، مضامین اور یادداشتیں خودنوشت کے متبادل کے طور پر سامنے آتی ہیں اور ادبی تحقیق میں بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اردو خودنوشت کے دائرے میں ایک اور اہم نام قدرت اللہ شہاب کا ہے جن کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ نے خودنوشت کو عوامی مقبولیت کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا۔ قدرت اللہ شہاب کا طرزِ تحریر، واقعات کے بیان میں تخیلی رنگ، اور روحانی تجربات کا امتزاج بعض نقادوں کے نزدیک سوانح سے زیادہ افسانوی ہے، تاہم شہاب کی خودنوشت نے اردو نثر کو ایک نیا انداز دیا، اور خودنوشت کو وسیع تر قارئین تک پہنچایا۔ ’’شہاب نامہ‘‘ کو جہاں عوامی سطح پر بے پناہ پذیرائی ملی، وہیں تنقید نگاروں نے اس کے بیانیہ، حقیقت اور اسلوب پر متنوع آرا کا اظہار کیا۔ مثلاً ڈاکٹر محمد حامد اور پروفیسر قمر رئیس نے اس خودنوشت میں تاریخی حقائق کی چھان بین کے پہلو کو اجاگر کیا، جب کہ بعض دیگر نقادوں نے اسے تخلیقی نثر کا اعلیٰ نمونہ قرار دیا۔ اسی سلسلے میں ابنِ انشا، مشتاق احمد یوسفی، اور شوکت تھانوی جیسے مزاح نگاروں کی یادداشتیں اور خاکے بھی خودنوشت کے پہلو لیے ہوئے ہیں جن سے اردو نثر کے مزاج، ذوق، اور زبان کی لطافت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابن انشا کی ’’ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں‘‘ اور یوسفی کی تحریریں اگرچہ مکمل خودنوشت نہیں، تاہم ان میں مصنف کا شعور، اس کا فکری زاویہ اور زندگی کے مشاہدات نہایت فنکارانہ انداز میں بیان ہوتے ہیں، جو تحقیق اور تنقید دونوں کے لیے نایاب مواد فراہم کرتے ہیں۔ اردو خواتین ادیبوں میں خودنوشت کا رجحان ذرا دیر سے آیا، لیکن جس خلوص اور فکری جرأت کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگیوں کو بیان کیا وہ اردو ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ قرۃ العین حیدر کی خودنوشت ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ محض ایک ذاتی داستان نہیں بلکہ ایک تہذیبی سفرنامہ بھی ہے جس میں ہجرت، تقسیم، تہذیبی بے سمتی اور عورت کے شعوری ارتقا کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی اور واجدہ تبسم کی تحریروں میں بھی خودنوشت کی کیفیات موجود ہیں جن سے نہ صرف ان کی ذات بلکہ ان کے عہد کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ عصمت چغتائی کی ’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ کو تنقید نگاروں نے ایک غیر معمولی خودنوشت قرار دیا ہے جس میں عورت کی آزادی، جنسی شناخت، ادبی تحریکوں، اور ترقی پسند تحریک کی اندرونی کمزوریوں کو نہایت بے باکی سے بیان کیا گیا ہے۔ اردو خودنوشت کے اس تنقیدی جائزے میں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ تحریریں حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں یا تخیل اور خود ساختہ بیانیے کا نتیجہ؟ محققین کا اتفاق ہے کہ خودنوشت کا بیانیہ ہمیشہ سادہ حقیقت سے آگے بڑھ کر تخلیقی سچائی کے قریب ہوتا ہے، کیونکہ فرد اپنی زندگی کو جس انداز سے دیکھتا اور بیان کرتا ہے، وہ محض واقعاتی تسلسل نہیں بلکہ ایک فکری تشکیل ہوتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی اور مظفر حنفی جیسے نقادوں نے اردو خودنوشت کو تخلیقی نثر کی ایک مستقل صنف قرار دیا ہے جس میں فن اور زندگی، حقیقت اور تخیل، ذاتی اور اجتماعی، سب کے درمیان ایک نازک توازن قائم کرنا پڑتا ہے۔ اردو خودنوشت نگاری پر تحقیق کے میدان میں اگرچہ مختلف جامعات میں کئی مقالے تحریر ہوئے ہیں، تاہم اس میدان میں مزید وسعت کی ضرورت ہے۔ بالخصوص اردو کے ان شعرا کی خودنوشتیں جو کسی نظریاتی یا تحریکاتی وابستگی رکھتے تھے، جیسے فیض احمد فیض، جانثار اختر، علی سردار جعفری، اور مجروح سلطانپوری، ان کی ذاتی یادداشتوں، خطوط، اور بیانیوں کو اگر باقاعدہ خودنوشت کے تناظر میں پرکھا جائے تو اردو ادب کا ایک نیا تنقیدی افق سامنے آسکتا ہے۔ بعض نقادوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ فیض کی شاعری بذاتِ خود ان کی خودنوشت ہے، جس میں ان کی گرفتاری، جلا وطنی، نظریاتی جدوجہد اور جذباتی تنہائی پوری شدت سے جھلکتی ہے۔ اردو خودنوشتوں کا ایک اور اہم پہلو ان کا لسانی اور اسلوبیاتی جائزہ ہے۔ ہر مصنف نے اپنے بیانیے کے مطابق زبان کا ایک مخصوص لہجہ اپنایا۔ جوش کی زبان پرانی شعریت سے مملو ہے، جب کہ شہاب کا اسلوب بیانیہ اور روزمرہ کی آمیزش سے بنا ہے۔ قرۃ العین حیدر کی نثر میں ایک خاص ادبی رچاؤ اور بین الاقوامی ادبی اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں، جب کہ عصمت کی تحریر بے ساختگی اور عوامی لب و لہجے کی نمائندہ ہے۔ یہی تنوع اردو خودنوشت کو نہ صرف تحقیق بلکہ اسلوبیاتی تنقید کا بھی مرکز بنا دیتا ہے۔ 1990 تک کی اردو خودنوشتیں اردو ادب کے لیے ایک خزانہ ہیں جن میں فرد کی ذات، اس کا عہد، اس کے مشاہدات اور اس کے خیالات نہایت قیمتی انداز میں محفوظ ہو گئے ہیں۔ ان تحریروں نے اردو ادب کو نہ صرف مواد دیا بلکہ ایک ایسی صنف عطا کی جو تخلیق، تحقیق، اور تنقید کے سنگم پر کھڑی ہے، اور جس کے بغیر اردو ادب کی تاریخ اور ترقی کی تفہیم ادھوری رہے گی۔ ان خودنوشتوں کے ذریعے اردو ادب کی فکری، تہذیبی، اور لسانی روایت کو سمجھنے میں جو وسعت ملی ہے، وہ قابلِ قدر اور ہمیشہ یاد رکھنے کے لائق ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں