کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

لاہور میں اردو افسانے کی روایت کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

لاہور اردو زبان و ادب کا ایک اہم ادبی اور ثقافتی مرکز رہا ہے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں سے لاہور نے اردو افسانے کی ترقی و ترویج میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ نہ صرف ناقابلِ انکار ہے بلکہ اردو افسانے کی ادبی تاریخ کا ایک زریں باب بھی ہے۔ افسانہ نگاری کی ابتدا اگرچہ دلی اور لکھنؤ کے ماحول میں ہوئی، مگر اس کی باضابطہ ادبی تحریک اور شعوری ارتقاء کا بڑا حصہ لاہور سے وابستہ رہا۔ یہ شہر صرف جغرافیائی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ فکری، نظریاتی اور ادبی اعتبار سے بھی اردو افسانے کے لیے ایک زرخیز زمین ثابت ہوا۔

لاہور میں قائم ہونے والے رسائل و جرائد جیسے “ادب لطیف”، “سویرا”، “نقوش”، “فنون”، اور “مخزن” نے اردو افسانہ نگاروں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں وہ اپنے خیالات، فن، اور طرزِ اظہار کو نکھارنے اور پھیلانے میں کامیاب ہوئے۔ ان رسائل کے مدیران، جیسے چراغ حسن حسرت، احمد ندیم قاسمی، حمید احمد خاں، اور خواجہ حسن نظامی نے نہ صرف افسانہ نگاروں کو جگہ دی بلکہ اردو نثر کی تربیت و اصلاح میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ لاہور کا یہ ادبی ماحول اتنا زرخیز تھا کہ اس نے اردو افسانے کو کلاسیکی اسلوب سے جدید حسیت اور موضوعاتی وسعتوں تک پہنچایا۔

منشی پریم چند نے اگرچہ اردو افسانے کو ہندوستانی معاشرت کی بنیادوں پر استوار کیا، لیکن لاہور نے اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے نئے فکری زاویوں سے روشناس کرایا۔ لاہور میں پیدا ہونے والے اور یہاں رہنے والے افسانہ نگاروں جیسے سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، بانو قدسیہ، انتظار حسین، رشید امجد، اور غلام عباس نے افسانے کے اسلوب، تکنیک اور بیانیے میں جدت پیدا کی۔ لاہور کی ادبی فضا نے افسانہ نگاروں کو وہ قوتِ اظہار عطا کی جس کے ذریعے وہ معاشرتی، سیاسی اور داخلی موضوعات کو مؤثر انداز میں افسانے کے سانچے میں ڈھال سکے۔

سعادت حسن منٹو، جو بمبئی سے واپسی کے بعد لاہور آ بسے، نے تقسیم ہند کے المیے کو جس شدت سے محسوس کیا اور اپنے افسانوں میں جس فکری جرات سے پیش کیا، وہ صرف لاہور جیسے شہر کے ادبی اور سیاسی پس منظر میں ہی ممکن تھا۔ لاہور نے منٹو کو وہ فکری آزادی دی جو ان کے افسانوں کی بے باکی، صداقت اور فنی بلندی کا سبب بنی۔ “ٹھنڈا گوشت”، “کھول دو”، “ٹوبہ ٹیک سنگھ”، اور “بو” جیسے افسانے نہ صرف منٹو کے انفرادی اسلوب کے نمائندہ ہیں بلکہ لاہور کے ادبی اور سماجی شعور کی بھی غمازی کرتے ہیں۔

اسی طرح احمد ندیم قاسمی نے لاہور ہی میں رہتے ہوئے “سناٹا”، “گنڈاسا”، “نرم گوشہ” جیسے افسانوں میں دیہی معاشرت، طبقاتی کشمکش، اور انسانی نفسیات کو اس درجہ گہرائی سے بیان کیا کہ وہ منٹو کے ہم عصر ہوتے ہوئے بھی ایک الگ فکری دھارے کے نمائندہ ٹھہرے۔ لاہور کی ادبی نشستوں، مجلسوں، اور تنقیدی محفلوں نے ان کی افسانہ نگاری کو شعور، توازن، اور تہذیبی گہرائی عطا کی۔

بانو قدسیہ، جو بعد ازاں ناول نگاری میں زیادہ معروف ہوئیں، ان کی ابتدائی افسانوی تخلیقات لاہور ہی کے رسائل میں شائع ہوئیں۔ ان کے افسانے “بازگشت”، “پروا”، اور “پیا نام کا دیا” میں عورت کے جذبات، گھریلو زندگی کی کشمکش، اور مرد و زن کے رشتوں کی تہہ داری کو جس خوبی سے پیش کیا گیا ہے، وہ لاہور کے اس ماحول کی دین ہے جہاں فکری مباحث، تخلیقی تجربات، اور ادبی جرأت کو فروغ دیا جاتا تھا۔

انتظار حسین، جنہیں اردو کے مابعد جدید افسانے کا امام کہا جاتا ہے، نے لاہور میں رہتے ہوئے افسانے کو نئی سمت عطا کی۔ ان کے ہاں علامتی طرزِ اظہار، تہذیبی حوالہ جات، اور مہجری شعور کا امتزاج نظر آتا ہے۔ “شہر افسوس”، “کایا کلپ”، اور “گمشدہ لوگ” جیسے افسانے لاہور کی اس فکری فضا کا نتیجہ ہیں جس میں ماضی، حال، اور مستقبل کے بیانیے باہم مربوط ہو جاتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں جو تہذیبی نوحہ ہے، وہ لاہور کی بدلتی ہوئی ثقافت اور معاشرت کا عکس بھی ہے۔

لاہور میں اردو افسانے کے اس فروغ میں صرف تخلیق کاروں کا ہی نہیں بلکہ قارئین اور نقادوں کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ لاہور میں فروغ پانے والی تنقیدی روایت نے افسانے کی فنّی ساخت، اسلوب، اور بیانیے پر مسلسل مکالمہ کیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، اور مشفق خواجہ جیسے نقادوں نے لاہور کے تنقیدی افق کو وسعت دی، اور اردو افسانے کے مختلف ادوار، موضوعات، اور تکنیکی پہلوؤں پر ایسی بصیرت افروز گفتگو کی جس سے افسانے کی شعریات تشکیل پائی۔

لاہور کے اردو افسانے کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاں محض سنجیدہ اور ادبی افسانے ہی نہیں لکھے گئے بلکہ مزاحیہ، علامتی، اور تمثیلی افسانے بھی بہت پذیرائی حاصل کرتے رہے۔ غلام عباس کا افسانہ “آنندی” ایک کلاسیکی طنزیہ افسانہ ہے جس میں سیاسی استعارے اور علامت کا بہترین استعمال موجود ہے۔ اسی طرح رشید امجد کے افسانے “تھکن”، “پرندہ” اور “ہوائی جہاز” افسانے کے اس علامتی رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں جو لاہور کے فکری مزاج سے جنم لیتا ہے۔

اردو افسانے میں صنفِ نسواں کی شرکت بھی لاہور کی ادبی فضا کا ایک خاص پہلو ہے۔ لاہور کی خواتین افسانہ نگاروں میں حجاب امتیاز علی، خدیجہ مستور، قرۃ العین حیدر (ابتدائی دور)، اور سلمیٰ اعوان نے ایسی فکری جرات اور فنکارانہ مہارت سے افسانے لکھے جنہوں نے اردو نثر میں عورت کے نقطۂ نظر اور داخلی تجربات کو جگہ دی۔ ان کے افسانے نہ صرف خواتین کے سماجی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ ان میں تہذیبی، نفسیاتی اور علمی گہرائی بھی موجود ہے۔

لاہور کی جامعات نے بھی افسانے کی تعلیم، تحقیق، اور تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج، اور اورینٹل کالج جیسے ادارے اردو ادب کی اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیقی مقالوں اور تنقیدی مطالعات کے ذریعے اردو افسانے کی روایت کو محفوظ اور مضبوط کرتے چلے آ رہے ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان ہونے والے مکالمات، تنقیدی مباحث، اور سیمینارز نے اردو افسانے کی نئی جہات کو متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

مجموعی طور پر لاہور میں اردو افسانے کی روایت محض ادبی سرگرمیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے اردو زبان، پاکستانی معاشرت، اور برصغیر کی تہذیبی شناخت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ روایت اب بھی زندہ ہے اور نئے افسانہ نگار لاہور کے ادبی ماحول میں تربیت پا کر اپنے تجربات اور مشاہدات کو افسانوی سانچے میں ڈھال رہے ہیں۔ اس تسلسل نے لاہور کو اردو افسانے کی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش مقام عطا کیا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں