فورٹ ولیم کالج کا قیام انگریزی استعمار کی ہندوستان میں علمی و لسانی منصوبہ بندی کا وہ اہم باب ہے جس نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ اس ادارے کا قیام 1800ء میں کلکتہ میں لارڈ ویلزلی کے حکم پر عمل میں آیا۔ اس کا مقصد برطانوی سول اور فوجی ملازمین کو ہندوستانی زبانوں میں تربیت دینا تھا تاکہ وہ برصغیر کے عوام سے موثر رابطہ قائم کر سکیں۔ اگرچہ اس کالج کا اولین مقصد نوآبادیاتی حکومت کے انتظامی مفادات کو تقویت دینا تھا، لیکن اس کے نتیجے میں اردو زبان و ادب کو غیر معمولی تقویت ملی۔ اس کالج نے اردو نثر کے اولین نمونے، متعدد تراجم، لغات، گرامر کی کتابیں، اور ادبی متون کو ترتیب دے کر اردو زبان کو ایک باقاعدہ ادبی زبان کے طور پر مستحکم کیا۔
اردو نثر کا باقاعدہ آغاز اسی ادارے سے ہوا۔ اس سے قبل اردو زبان میں نثر زیادہ تر خط و کتابت یا رسمی دستاویزات تک محدود تھی، لیکن فورٹ ولیم کالج کے زیرِ اہتمام جو ادبی تخلیقات سامنے آئیں، انہوں نے اردو نثر کو قصہ، حکایت، فکشن اور مذہبی نثر میں توسیع دی۔ اس سلسلے میں میر امن دہلوی کی “باغ و بہار” اور حیدر بخش حیدری کی “آرائشِ محفل” نمایاں ترین مثالیں ہیں۔ “باغ و بہار” جو فارسی داستان قصۂ چہار درویش کا اردو ترجمہ ہے، اردو نثر کا پہلا باقاعدہ ادبی نمونہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں جو سادہ، رواں، اور دلنشین انداز اختیار کیا گیا، وہ اردو نثر کے لیے آئندہ راہنما بن گیا۔
اس ادارے میں میر امن، کاظم علی جاوید، سادات علی خان، اور مرزا رجب علی بیگ سرور جیسے اہلِ قلم نے قابلِ ذکر علمی و ادبی خدمات انجام دیں۔ ان اہلِ قلم نے محض ترجمہ کاری پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ان تراجم میں اس وقت کے معاشرتی، تہذیبی، اور لسانی رجحانات کو بھی سمویا۔ اس طرح فورٹ ولیم کالج نہ صرف ترجمے کا مرکز رہا بلکہ یہ ہندوستانی زبانوں کی لسانی تدوین اور معیار بندی کا اہم سنگِ میل بن گیا۔
فورٹ ولیم کالج میں جہاں ایک طرف کلاسیکی اور مذہبی متون کا ترجمہ ہوا، وہیں دوسری طرف اخلاقی، تعلیمی اور عام فہم کہانیاں بھی لکھی گئیں۔ اس ضمن میں لال چند کی “نو طرزِ مرصع”، غلام حمدان کی “مکالمہ بین ہندو و ترک”، اور رجب علی بیگ سرور کی “فسانۂ عجائب” کا ذکر ناگزیر ہے۔ ان کتب نے اردو فکشن کو نہ صرف ابتدائی ڈھانچہ فراہم کیا بلکہ بیان کے فن، منظر نگاری، کردار نگاری اور مکالمہ سازی کی روایت کو بھی متعارف کروایا۔
اس ادارے میں کام کرنے والے مترجمین اور ادیبین نے ہندوستانی روایت کو مغربی ادبی اصولوں کے تحت ترتیب دینے کی کوشش کی۔ فورٹ ولیم کالج کے ذریعے جو زبان اپنائی گئی، وہ محاوراتی، سلیس، اور عوامی فہم کے قریب تر تھی۔ اس سے قبل اردو نثر میں یا تو فارسی زدہ انداز غالب تھا یا مذہبی تصانیف کی سنجیدہ اور رسمی زبان۔ فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کو روزمرہ بول چال اور ادبی اسلوب کے سنگم پر لا کھڑا کیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد اگرچہ انتظامی اور سیاسی تھا لیکن اس کے ذریعے اردو ادب کو ایک لسانی شناخت اور ساخت ملی جو صدیوں تک برقرار رہی۔
اس کالج میں مذہبی کتب کے تراجم بھی قابلِ ذکر ہیں۔ خاص طور پر قرآن پاک کا اردو ترجمہ، تفسیر، اور دیگر اسلامی کتب جیسے بخاری شریف، مثنوی مولانا روم اور دیگر صوفی متون کا ترجمہ اس ادارے کی وسعت کا ثبوت ہیں۔ ان تراجم نے اردو کو مذہبی فکر کی ترجمان زبان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان تراجم سے جہاں مذہبی رسائی عام ہوئی، وہیں اردو زبان کے اسالیب میں وسعت اور گہرائی بھی پیدا ہوئی۔
فورٹ ولیم کالج کی ایک اہم خصوصیت اس کا ادارتی نظام اور علمی معیار تھا۔ یہاں ہر کتاب کو علمی و لسانی معیار پر پرکھا جاتا، اس میں مقامی اور غیر مقامی اساتذہ کی آراء کو شامل کیا جاتا، اور زبان و بیان کو درستگی اور شفافیت کی طرف لے جایا جاتا۔ کالج کے نگران اساتذہ میں ولیم کیری، جان گلکرسٹ، ہورنلی اور ولسن جیسے مغربی اہلِ علم شامل تھے جنہوں نے اردو کے قواعد، لغت، اور لغوی تحقیق میں اہم کام کیا۔ خاص طور پر گلکرسٹ کی اردو لغت اور اردو گرامر آج بھی حوالہ جاتی اہمیت رکھتی ہیں۔
فورٹ ولیم کالج میں اردو کے علاوہ بنگلہ، فارسی، سنسکرت، اور عربی زبانوں پر بھی کام ہوا، مگر اردو کو جو مرکزی مقام حاصل ہوا وہ کسی اور زبان کو نصیب نہ ہو سکا۔ اس ادارے نے اردو کو محض بولی سے ایک باقاعدہ تحریری، تدریسی اور علمی زبان میں بدل دیا۔ اردو زبان کی درسی کتابیں، قواعد، لغات، اور علمی اصطلاحات کی تدوین نے اردو کو علمی اظہار کی مکمل صلاحیت فراہم کی۔
اس ادارے کے اثرات دور رس ثابت ہوئے۔ فورٹ ولیم کالج کے ذریعے پیدا ہونے والی اردو نثر کی روایت نے بعد میں آنے والے ادیبوں اور مترجمین پر گہرا اثر چھوڑا۔ سرسید احمد خان، مولوی نذیر احمد، شبلی نعمانی، اور حالی جیسے مصلحین و ادیبین نے اردو نثر کو جو فکری اور اصلاحی رنگ دیا، اس کی جڑیں فورٹ ولیم کالج کی ابتدائی کاوشوں میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ یہاں کی زبان نہ صرف سادہ، بلکہ ایسی تھی جسے عام آدمی بھی سمجھ سکے۔ اسی سادگی نے اردو کو عوامی زبان بنایا اور ادب کو طبقاتی حدود سے نکال کر قومی دھارے میں شامل کیا۔
1854ء میں فورٹ ولیم کالج کا باقاعدہ خاتمہ ہوا، لیکن اس کے اثرات اردو زبان پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئے۔ بعد ازاں دہلی کالج، علی گڑھ تحریک، دارالترجمہ عثمانیہ حیدرآباد، انجمن ترقی اردو اور دیگر اداروں نے اردو ادب کی خدمت میں حصہ لیا، مگر فورٹ ولیم کالج کو یہ انفرادیت حاصل رہی کہ اس نے اردو ادب کی بنیادوں کو وضع کیا اور نثر کو ایک مستند اور منظم فنی و لسانی قالب عطا کیا۔
اردو ادب کی تاریخ میں فورٹ ولیم کالج کو صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں، بلکہ ایک عہد کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ وہ عہد تھا جب اردو نثر نے اپنی شناخت، سمت، اور مقام تلاش کیا۔ یہ وہ عہد تھا جب پہلی مرتبہ اردو کو غیر شعوری طور پر ایک “قومی زبان” کے قالب میں ڈھالا گیا۔ اگرچہ اس کے پس پشت نوآبادیاتی عزائم کارفرما تھے، لیکن اردو زبان نے ان عزائم کو اپنی تہذیبی قوت سے زائل کر دیا اور ایک نئی ادبی تہذیب کو جنم دیا۔ اس تہذیب کی بنیاد میں میر امن کا سادہ اسلوب، سرور کی دلپذیر بیانیہ طرز، اور فورٹ ولیم کالج کے علمی نظم و ضبط کی آمیزش ہے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ فورٹ ولیم کالج (1800 تا 1854) اردو زبان و ادب کی تاریخ کا وہ روشن باب ہے جس نے اردو کو زبانِ ادب، زبانِ درس، اور زبانِ عوام بنایا۔ اردو نثر کی ابتدا، ادبی اصناف کا تعارف، قواعد و لغات کی تدوین، اور ادبی معیار کا تعین اسی ادارے کی بدولت ممکن ہوا۔ اگر فورٹ ولیم کالج نہ ہوتا تو اردو نثر کا ارتقا ممکنہ طور پر کئی دہائیاں پیچھے رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو تحقیق میں اس ادارے کو ہمیشہ بنیادی ماخذ اور اولین سنگِ بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔