اردو زبان و ادب کی ترقی میں جن علمی شخصیات نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، ان میں ڈاکٹر احسن فاروقی کا نام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ ایک بلند پایہ محقق، نقاد، ادیب، مترجم، مؤرخ، اور استاد تھے جن کی علمی و ادبی خدمات اردو ادب کی تاریخ میں روشن مثال کے طور پر محفوظ ہیں۔ ان کی شخصیت علم و تحقیق، فکری جستجو، ادبی تنقید، اور تدریسی شوق کا حسین امتزاج تھی۔ انہوں نے نہ صرف اردو ادب کی مختلف جہات کا گہرا مطالعہ کیا بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے ادب کے مختلف ادوار اور میلانات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کا اندازِ فکر منطقی، منظم، اور علمی تھا جس نے اردو تنقید کو ایک نئی سمت عطا کی۔
ڈاکٹر احسن فاروقی کی ولادت 1910ء میں بھارت کے شہر لکھنؤ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم لکھنؤ ہی میں حاصل کی، بعد ازاں جامعہ علی گڑھ اور دہلی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کے علمی ذوق اور تحقیقی استعداد نے انہیں بہت جلد اردو ادب کے نمایاں محققین میں شمار کرا دیا۔ وہ جدید تعلیم سے آراستہ تھے اور مغربی ادبیات و نظریات کا گہرا فہم رکھتے تھے، مگر ساتھ ہی مشرقی تہذیب و روایت کے قدر شناس بھی تھے۔ یہی امتزاج ان کی تحریروں کو وقار، توازن اور ہمہ گیری عطا کرتا ہے۔
احسن فاروقی نے اپنی علمی زندگی کا آغاز تدریس سے کیا اور بعد ازاں دہلی یونیورسٹی، جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن)، اور دیگر علمی اداروں سے منسلک رہے۔ وہ اردو، فارسی، انگریزی اور عربی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کا شمار اردو کے ان خوش نصیب اساتذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی محنت اور خلوص سے طلبا کی کئی نسلوں کو اردو ادب سے جوڑا۔ وہ ایک ہمہ گیر مفکر تھے جو ادب کو صرف جمالیاتی تجربہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ سماجی، تہذیبی اور فکری سطح پر بھی اس کے اثرات کا مطالعہ کرتے تھے۔
احسن فاروقی کی تنقیدی بصیرت نے اردو تنقید کو نئے زاویے عطا کیے۔ انہوں نے صرف مغربی تنقید کے اصولوں کو ہی نہیں اپنایا بلکہ ان کو اردو تہذیبی سیاق میں ڈھال کر استعمال کیا۔ ان کی معروف کتاب “اردو کی ادبی تنقید“ اردو تنقید کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں انہوں نے قدیم و جدید تنقیدی رجحانات کا جائزہ لیا، اور اردو تنقید کی خامیوں، امکانات اور حدود کا بڑی دقت نظر سے مطالعہ کیا۔ ان کا اندازِ تنقید محض تشریحی یا تاثراتی نہیں بلکہ تجزیاتی، استدلالی اور تاریخی تھا۔
ان کی ایک اور اہم تصنیف “اردو کی نثری داستانیں“ اردو نثر کے ارتقائی سفر کی ایک جامع جھلک پیش کرتی ہے۔ انہوں نے داستانوی ادب کے اسالیب، موضوعات، زبان، اور بیانیہ کی ساخت کو علمی بنیادوں پر پرکھا۔ ان کا ماننا تھا کہ اردو نثر کی ابتدا تفریحی ادب سے ہوئی مگر اس نے جلد ہی سماجی اور فکری پہلو اختیار کر لیا، اور اس ارتقا کی تفصیل انہوں نے نہایت باریک بینی سے بیان کی۔
احسن فاروقی کے تحقیقی کام میں تاریخِ ادب پر بھی خاص توجہ نظر آتی ہے۔ ان کی تصنیف “اردو ادب کی مختصر تاریخ“ میں اردو ادب کے مختلف ادوار، دبستانوں، اصناف، اور شخصیات کا جامع مگر مختصر جائزہ ملتا ہے۔ اس کتاب کو تدریسی سطح پر بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی یہ اردو ادب کے طلبا کے لیے ایک بنیادی حوالہ ہے۔
ان کی ایک قابلِ ذکر خصوصیت ترجمہ نگاری بھی تھی۔ انہوں نے مغربی ادب کے بعض اہم متون کو اردو میں منتقل کر کے اردو قارئین کے علمی افق کو وسعت دی۔ ان کے ترجمے میں زبان کی سادگی، اسلوب کی دلکشی اور مفہوم کی مکمل ترسیل کا اہتمام ہوتا تھا۔ وہ ترجمے کو محض لفظی منتقلی نہیں بلکہ فکری ہم آہنگی کا وسیلہ سمجھتے تھے۔
احسن فاروقی نے شاعری کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی، تاہم ان کی اصل پہچان نثر، تنقید، تحقیق، اور تاریخ ادب ہے۔ ان کا ادبی نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ادب معاشرے کا آئینہ بھی ہے اور اس کے لیے رہنما بھی۔ وہ ادب کو محض تخیل کی پرواز نہیں بلکہ حقیقت سے مربوط فکری سرگرمی سمجھتے تھے۔ ان کی تحریروں میں علمی وقار، تہذیبی شعور، منطقی استدلال اور تخلیقی نزاکت کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔
ڈاکٹر احسن فاروقی کی شخصیت میں عاجزی، متانت، سنجیدگی اور علمی وقار نمایاں تھا۔ انہوں نے شہرت سے زیادہ خدمت کو ترجیح دی۔ ان کے شاگرد آج بھی ان کے علمی، اخلاقی اور تدریسی اسلوب کو یاد کرتے ہیں۔ ان کی وفات 1977ء میں ہوئی، مگر ان کی تصانیف، مقالات اور تنقیدی نظریات آج بھی اردو ادب کے متلاشیوں کو علم و آگہی کا چراغ فراہم کرتے ہیں۔
ان کے دیگر اہم کاموں میں “اردو افسانہ”، “تحقیقی و تنقیدی مضامین”، “جدید اردو نثر”، اور “اردو میں تنقید نگاری” قابل ذکر ہیں۔ ان تمام تصانیف میں ڈاکٹر احسن فاروقی کی تحقیقی گیرائی، فکری ژرف نگاہی اور تنقیدی توازن صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ اردو ادب میں ایک ایسے استاد، محقق اور نقاد تھے جنہوں نے روایت اور تجدد کے درمیان ایک خوبصورت توازن قائم کیا۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈاکٹر احسن فاروقی اردو ادب کی وہ روشن شمع تھے جس کی لو آج بھی تحقیق و تنقید کے مسافروں کو روشنی عطا کر رہی ہے۔ ان کا فکری ورثہ نہ صرف اردو ادب کے لیے باعثِ افتخار ہے بلکہ نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ بھی ہے۔ اردو تنقید کی تاریخ اگر مکمل اور مدلل صورت میں لکھی جائے تو ڈاکٹر احسن فاروقی کا نام اس کے ابتدائی ابواب میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔