کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

تحریک پاکستان مین میمن کمیونٹی کا کردار

تحریکِ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی ایک عظیم اور تاریخی جدوجہد تھی، جس کا مقصد مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا قیام تھا جہاں وہ اپنی دینی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ اس تحریک میں مختلف طبقات، اقوام، برادریوں، اور شخصیات نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ان ہی طبقات میں ایک نمایاں اور مؤثر برادری “میمن کمیونٹی” کی تھی، جنہوں نے اپنی علمی، معاشی، سیاسی اور فلاحی خدمات کے ذریعے اس تحریک کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ میمن کمیونٹی برصغیر کے اُن مسلمانوں پر مشتمل تھی جو صدیوں سے تجارت، صنعت، زراعت اور دیگر معاشی میدانوں میں کامیاب اور فعال تھے۔ ان کی حب الوطنی، دینی وابستگی، قومی شعور اور قیامِ پاکستان کے لیے قربانیوں کا ایک سنہرا باب تحریکِ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔

میمن برادری کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ ان کی اکثریت گجرات، کاٹھیاواڑ، کچ، سندھ، بمبئی اور دیگر علاقوں میں مقیم تھی۔ ان میں بہت سے لوگ ہندو مذہب سے اسلام میں داخل ہوئے تھے، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی دینی غیرت، شریعت سے محبت، اور جماعتی نظم و ضبط اس درجہ مستحکم ہو چکا تھا کہ یہ برادری ایک مثالی اسلامی معاشرہ کہلانے لگی۔ ان کے دینی ادارے، مدرسے، مساجد، اور فلاحی تنظیمیں تحریکِ پاکستان سے پہلے ہی فعال تھیں اور یہ جذبہ تحریک کے زمانے میں شدت اختیار کر گیا۔ ان کی دینی وابستگی نے انھیں مسلم لیگ کے نظریے کے قریب کر دیا، اور وہ اس تصورِ پاکستان کو فوراً سمجھ گئے جو علامہ اقبال نے پیش کیا اور جسے قائدِ اعظم محمد علی جناح نے عملی جامہ پہنایا۔

میمن برادری کی تحریکِ پاکستان میں عملی شمولیت کی متعدد صورتیں تھیں۔ سب سے پہلے ان کی مالی معاونت کا تذکرہ ضروری ہے۔ اس برادری نے مسلم لیگ کے جلسوں، اجلاسوں، اخبارات، تعلیمی اداروں، مدارس، رفاہی اداروں اور تحریک کے دفاتر کے لیے دل کھول کر چندے دیے۔ بمبئی، کراچی، حیدرآباد دکن، سورت، نواب شاہ، سکھر، جونا گڑھ اور دیگر شہروں میں میمن تاجروں نے مسلم لیگ کے دفاتر کے لیے عمارتیں وقف کیں، گاڑیاں دیں، اخبارات کو فنڈز مہیا کیے، اور مسلم لیگ کے امیدواروں کی انتخابی مہمات میں لاکھوں روپے خرچ کیے۔ قائد اعظم کے ذاتی فنڈ میں بھی میمن تاجروں کا بڑا حصہ تھا۔ ایک مثال حاجی عبدالله ہارون کی ہے، جنہوں نے نہ صرف مالی امداد فراہم کی بلکہ عملی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

حاجی عبدﷲ ہارون میمن برادری کے سب سے معروف سیاسی رہنما تھے جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریکِ پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ وہ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے اور ان کا شمار اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے 1940ء کے قراردادِ لاہور کی تیاری اور منظوری میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی فراخ دلی، بصیرت، اور دینی و قومی جذبہ میمن برادری کی نمائندگی کرتا تھا۔ ان کی قیادت میں کراچی کے میمن تاجروں نے تحریکِ پاکستان کو معاشی سہارا دیا۔ اُن کی وفات 1942ء میں ہوئی، لیکن ان کے بعد ان کے صاحبزادے یوسف ہارون اور دیگر میمن رہنماؤں نے ان کے مشن کو جاری رکھا۔

کراچی، جو بعد ازاں پاکستان کا دارالحکومت بنا، تحریک کے زمانے میں میمن برادری کا گڑھ بن چکا تھا۔ یہاں کے میمن اداروں، جماعتوں اور انجمنوں نے باقاعدہ قراردادیں منظور کیں، جلسے کیے، اخبارات جاری کیے، اور مسلم لیگ کے کارکنان کے لیے پناہ گاہیں اور مالی وسائل فراہم کیے۔ میمن کمیونٹی کی خواتین بھی اس میدان میں پیچھے نہ رہیں۔ خواتین نے جلسے، دستکاری کے مراکز، اور فنڈ ریزنگ پروگراموں میں فعال شرکت کی۔ ان کی اسلامی تربیت، تہذیبی شعور، اور حب الوطنی کی جذباتی کیفیت نے تحریک کو عوامی رنگ عطا کیا۔

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب لاکھوں مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا، تو میمن کمیونٹی نے ان کی آبادکاری، خوراک، رہائش، طبی امداد اور ملازمتوں کے حصول کے لیے جو غیر معمولی خدمات سرانجام دیں، وہ آج بھی سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔ میمن تاجروں نے اپنے گودام کھول دیے، اپنے گھر مہاجرین کے لیے وقف کر دیے، اور اپنے کاروباروں میں مہاجرین کو شریک کیا۔ بعض نے تو اپنے ذاتی اثاثے صرف اس مقصد کے لیے وقف کر دیے کہ نئے وطن میں اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا عملی مظاہرہ ہو۔

میمن کمیونٹی کا ایک امتیازی وصف ان کی تنظیمی صلاحیت اور جماعتی نظم ہے۔ اُنہوں نے نہ صرف تحریکِ پاکستان کے دوران بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی اجتماعی طور پر تعلیمی ادارے، ہسپتال، تجارتی ادارے اور فلاحی انجمنیں قائم کیں جنہوں نے پاکستان کی ابتدائی معیشت، تعلیم اور صحت کے نظام کو سہارا دیا۔ اُن کی انجمن “انجمنِ اسلام” بمبئی میں بھی تحریکِ پاکستان کے حق میں آواز بلند کرتی رہی۔ میمن حضرات نے پاکستان کے تصور کو صرف ایک نعرہ نہیں سمجھا بلکہ اپنی پوری معیشت، سماجی نظم اور تہذیبی وجود کو اس مقصد کے تابع کر دیا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ میمن برادری نے تحریکِ پاکستان میں جو کردار ادا کیا وہ نہ صرف مالی، تنظیمی اور فلاحی نوعیت کا تھا بلکہ فکری، تعلیمی، اخلاقی اور قومی شعور کی آبیاری کا ذریعہ بھی تھا۔ ان کے جذبۂ حب الوطنی، دینی غیرت، اور ملی حمیت نے تحریکِ پاکستان کو عوامی سطح پر جوش و خروش عطا کیا۔ وہ قائدِ اعظم کے سچے پیروکار ثابت ہوئے اور پاکستان کے قیام کو ایک دینی اور قومی فریضہ سمجھ کر اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریکِ پاکستان کی کامیابی میں جہاں دیگر برادریوں کا حصہ تھا، وہیں میمن کمیونٹی کی مالی، اخلاقی، فکری اور عملی معاونت بھی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی خدمات کو تاریخ نے محفوظ کیا ہے، لیکن آج کے مورخ اور طالب علم کو چاہیے کہ ان خدمات کا مفصل مطالعہ کرے تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہو کہ پاکستان کے قیام کے لیے کس قدر مختلف طبقات نے اپنے اپنے حصے کا چراغ جلایا، اور میمن کمیونٹی نے کس قدر خلوص اور ایثار کے ساتھ اس تحریک میں جان ڈالی۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں