کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

مولانا حامد حسن قادری سوانح حیات اور ادبی کارنامے

مولانا حامد حسن قادری بیسویں صدی کے اوائل میں علمی، دینی اور ادبی افق پر نمودار ہونے والی اُن نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے نہ صرف اسلامی علوم و فنون میں غیر معمولی مہارت حاصل کی بلکہ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بھی قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی شخصیت جہاں ایک جید عالمِ دین کی حیثیت سے ممتاز ہے، وہیں اردو نثر و نظم میں ان کی تحریریں علمی معیار، فکری گہرائی اور ادبی لطافت کی آئینہ دار ہیں۔

مولانا حامد حسن قادری کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کے والدین نے انھیں ابتدا ہی سے دینی تعلیم کی طرف مائل کیا۔ قرآن مجید کی تعلیم کے بعد انھوں نے روایتی انداز میں عربی، فارسی، فقہ، تفسیر اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں اُس دور کے ممتاز علما شامل تھے جن کی صحبت نے مولانا کو علمی پختگی عطا کی۔ وہ امام احمد رضا خان بریلوی کے مرید خاص اور علمی جانشین بھی تھے، جن کے علمی مکتب فکر کا وہ پوری زندگی پرچار کرتے رہے۔

مولانا حامد حسن قادری نے اپنے وقت کی علمی فضا میں ایک مؤثر اور وقیع کردار ادا کیا۔ ان کی علمی سرگرمیوں کا مرکز بریلوی مکتب فکر کی ترویج اور اسلام کی حقیقی روح کی اشاعت تھا۔ ان کی تحریریں مذہبی، علمی اور ادبی ہر اعتبار سے گہری بصیرت رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف درس و تدریس میں ماہر تھے بلکہ ایک زبردست خطیب، محقق، ادیب اور مترجم بھی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دینی تعلیمات کے فروغ اور مسلکِ اہل سنت کی اشاعت میں گزارا۔

مولانا قادری نے متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں عقائد، فقہ، سیرت، مناقب اور تصوف جیسے موضوعات پر گراں قدر علمی سرمایہ موجود ہے۔ ان کی نثر متوازن، سادہ لیکن فکری گہرائی کی حامل ہوتی تھی۔ وہ پیچیدہ مذہبی مسائل کو نہایت سہل انداز میں اردو زبان میں بیان کرتے تھے، جس سے عام قارئین کو علمی موضوعات سمجھنے میں مدد ملتی۔ ان کی تحریروں کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ عام فہم ہونے کے باوجود علمی معیار پر بھی پوری اترتی ہیں۔

ان کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ اردو نثر کو مذہبی اور علمی ادب سے جوڑنا تھا۔ انہوں نے مذہبی موضوعات کو محض جذباتی انداز میں پیش کرنے کے بجائے علمی انداز میں مدلل طریقے سے بیان کیا۔ ان کی کتابیں نہ صرف مذہبی حلقوں میں بلکہ عام ادبی ذوق رکھنے والوں میں بھی مقبول ہوئیں۔ وہ خطابت میں بھی ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ ان کے خطبات اور تقاریر میں زبان و بیان کی چاشنی، استدلال کی قوت، اور ادبی حسن نمایاں ہوتا تھا۔

مولانا حامد حسن قادری کی ایک نمایاں خدمت اردو تراجم کا میدان بھی ہے۔ انہوں نے عربی و فارسی کی کئی اہم مذہبی اور تصوفی کتب کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ان تراجم میں زبان کی روانی، مطلب کی وضاحت اور اصل متن کے مفہوم کی کامل ترجمانی کی گئی ہے۔ ان کے تراجم نے اردو داں طبقے کو اسلامی علوم تک رسائی میں مدد دی۔

انھوں نے امام احمد رضا خان بریلوی کے افکار کی تدوین، تشریح اور توضیح میں بھی بڑا کام کیا۔ امام احمد رضا کی تصانیف کی شرح اور توضیح کرتے ہوئے مولانا حامد حسن قادری نے نہ صرف ان کے خیالات کو عام فہم بنایا بلکہ انھیں نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی کیا۔

مولانا قادری کی تحریروں میں زبان و بیان کا خاص التزام ملتا ہے۔ وہ عربی اور فارسی اثرات سے بھری ایک کلاسیکی نثر لکھتے تھے جو اس وقت کی علمی نثر کا طرۂ امتیاز تھی۔ مگر وہ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے کہ عبارت عام فہم ہو، اور قارئین اس سے علمی فائدہ بھی اٹھا سکیں۔ یہی ان کی تحریروں کی کامیابی کا راز ہے۔

جہاں تک ان کی شعری خدمات کا تعلق ہے، وہ بنیادی طور پر نثر نگار تھے مگر نعتیہ شاعری سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعض اشعار میں عشقِ رسول ﷺ، مدحتِ مصطفیٰؐ، اور تصوف کی روحانی کیفیتیں موجود ہیں۔ اگرچہ ان کی شاعری کا دائرہ محدود تھا، مگر جو کچھ بھی انہوں نے کہا وہ گہرے جذبے، عقیدت اور فنی چابک دستی سے مزین ہے۔

ان کے علمی و ادبی کارناموں کا دائرہ صرف برصغیر تک محدود نہیں بلکہ عرب و عجم میں بھی ان کی تصانیف اور افکار کو پڑھا اور سراہا گیا۔ ان کی کتابیں اہل علم کے حلقوں میں آج بھی ایک حوالہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

مولانا حامد حسن قادری کی زندگی کا بیشتر حصہ اشاعت دین، درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور تبلیغ و ارشاد میں گزرا۔ ان کی خدمات کی بدولت نہ صرف عوام میں دینی بیداری پیدا ہوئی بلکہ اردو زبان کو ایک باوقار علمی زبان کے طور پر فروغ ملا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں اور مریدوں نے ان کی علمی روایت کو جاری رکھا اور آج بھی ان کے افکار اور تحریریں علمی و ادبی حلقوں میں ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ مولانا حامد حسن قادری کی شخصیت اردو اسلامی ادب کے ایک ایسے درخشندہ باب کی مانند ہے جس نے نہ صرف دینی علوم میں گہرائی پیدا کی بلکہ اردو زبان کو ایک موثر ذریعہ اظہار بنا کر علمی و فکری ترقی کی راہ ہموار کی۔ ان کے سوانحی، فکری اور ادبی پہلوؤں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے علمی سرمایے سے بہتر انداز میں فیض حاصل کر سکیں۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں