کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اشرف صبوحی حیات اور ادبی کارنامے

اشرف صبوحی کا اصل نام محمد اشرف تھا، جبکہ “صبوحی” تخلص کے طور پر استعمال کیا۔ ان کی پیدائش دہلی کے علمی و ادبی ماحول میں ہوئی جہاں اردو زبان و ادب کو گھر گھر میں عزت و مقام حاصل تھا۔ ان کے خاندان کا تعلق تعلیم و تدریس اور مذہبی خدمات سے تھا۔ بچپن ہی سے انھیں مطالعہ کا شوق تھا اور شعری و نثری ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ تعلیم انہوں نے دہلی سے ہی حاصل کی، جہاں اس وقت اردو زبان کا نہایت خوبصورت اور شائستہ ماحول موجود تھا۔ اشرف صبوحی کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جس میں تہذیب، شائستگی، اور زبان کی نفاست بنیادی اقدار سمجھی جاتی تھیں۔ یہی عناصر بعد ازاں ان کی نثر کی شناخت بنے۔

ان کا ادبی سفر ابتدائی طور پر طنزیہ اور مزاحیہ تحریروں سے شروع ہوا۔ انھوں نے ابتدا میں اخبارات و رسائل میں مضامین اور خاکے لکھنے شروع کیے جن میں ان کی مشاہداتی قوت اور زبان پر عبور واضح طور پر محسوس ہوتا تھا۔ ان کی پہلی ادبی شناخت “خاکہ نگار” کے طور پر بنی۔ اشرف صبوحی نے روزمرہ زندگی کے معمولی مگر پراثر کرداروں کو اپنی تحریروں میں ایسی مہارت سے پیش کیا کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ان افراد کو ذاتی طور پر جانتا ہو۔ ان کے خاکے کسی خیالی دنیا کے باسی نہیں بلکہ حقیقی زندگی کی زندہ تصویر ہوتے ہیں۔ ان میں وہ کردار ہیں جو بازار میں، کوچہ و محلہ میں، یا گھریلو ماحول میں قاری کے سامنے روزمرہ آتے جاتے نظر آتے ہیں۔

اشرف صبوحی کے مشہور خاکوں میں “مولوی صاحب”، “چچا خیراندیش”، “میاں جی”، اور “دلی والے” شامل ہیں۔ یہ خاکے نہ صرف مزاحیہ رنگ رکھتے ہیں بلکہ تہذیبی اور معاشرتی اقدار کی جھلکیاں بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں کا کمال یہ ہے کہ وہ طنز و مزاح کے پردے میں ایک سنجیدہ معاشرتی پیغام بھی دے دیتے ہیں۔ ان کا اندازِ تحریر نہایت سادہ، رواں اور دلکش ہوتا ہے۔ وہ بڑے ادبی جملوں یا فلسفیانہ اظہار سے گریز کرتے ہوئے، عام زبان میں غیرمعمولی بات کہہ جاتے ہیں۔ اشرف صبوحی نے تہذیبی نوحہ بھی اپنے انداز میں بیان کیا اور دہلی کے زوال پذیر ماحول کو بہت محبت سے قلم بند کیا۔

ان کے خاکوں کی ایک خاص بات ان کے کرداروں کا جاندار اور زندہ ہونا ہے۔ ہر کردار اپنی پوری شخصیت کے ساتھ قاری کے ذہن میں اترتا ہے اور دیر تک اس کی یاد تازہ رہتی ہے۔ ان کے ہاں کردار سازی محض بیان یا خاکہ کشی نہیں بلکہ ایک مکمل فکری تجزیہ ہے۔ وہ کردار کی ظاہری حرکات و سکنات سے زیادہ اس کے باطن میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مطالعہ انسانی نفسیات پر مبنی ہوتا ہے جو ان کے خاکوں کو ادب عالیہ کا حصہ بناتا ہے۔

اشرف صبوحی کی نثر نگاری صرف خاکہ نگاری تک محدود نہ رہی، انہوں نے سفرنامہ نگاری میں بھی اہم کام کیا۔ ان کا سفرنامہ “دلی کا جو ذکر کیا” نہ صرف ایک دلچسپ سیاحتی روداد ہے بلکہ تہذیبی تاریخ کا قیمتی باب بھی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے دہلی کے گلی کوچوں، عمارتوں، بازاروں، رسم و رواج، اور وہاں کے باسیوں کے حالات کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری نہ صرف ان جگہوں سے آشنا ہوتا ہے بلکہ ان کے ثقافتی پس منظر سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ ان کی یہ کتاب دہلی کی تہذیبی تاریخ کی ایک اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے۔

انھوں نے افسانہ نگاری میں بھی طبع آزمائی کی، اور کئی مختصر افسانے تحریر کیے جو زبان و بیان، پلاٹ اور کردار نگاری کے لحاظ سے عمدہ مثالیں ہیں۔ ان کے افسانوں میں بھی وہی مشاہدہ، طنز، اور تہذیبی رنگ نمایاں نظر آتا ہے جو ان کے خاکوں کی پہچان ہے۔ وہ معاشرتی زندگی کی چھوٹی چھوٹی الجھنوں، ناہمواریوں اور تضادات کو نہایت ہنر مندی سے کہانی میں ڈھال دیتے ہیں۔ ان کے ہاں طنز کبھی تلخی نہیں بنتا بلکہ مسکراہٹ میں لپٹی حقیقت کا عکس ہوتا ہے۔

اشرف صبوحی کی ادبی خدمات پر تحقیقی و تنقیدی کام بھی ہوا ہے، اور انھیں اردو کے اہم نثرنگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی نثر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف ادیب ہی نہیں، بلکہ ایک حساس دل رکھنے والے سماجی ناقد بھی تھے جو اپنے معاشرے کی کمزوریوں، خوبیوں، تضادات، اور تبدیلیوں پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ انہوں نے اردو ادب کو وہ اندازِ نثر دیا جو نہ صرف ہنسا سکے بلکہ تہذیب کا دکھ بھی جتلا سکے۔ ان کا اسلوب کسی ایک دبستان سے وابستہ نہ تھا بلکہ ان کی انفرادیت نے انہیں جداگانہ شناخت عطا کی۔

ادبی حلقوں میں اشرف صبوحی کا نام احترام سے لیا جاتا ہے، اور ان کی تحریریں آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ ان کے فن کی تازگی، تہذیب کی خوشبو، اور زبان کی سادگی نے انھیں وقت کی گرد سے محفوظ رکھا ہے۔ ان کے خاکے، سفرنامے، اور مضامین آج بھی اردو ادب کے قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں، اور آنے والی نسلوں کے لیے ادب، تہذیب، اور اخلاق کا سبق فراہم کرتے ہیں۔

آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ اشرف صبوحی اردو ادب کی ان شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے فن کے ذریعے اردو نثر کو ایک نیا رخ دیا۔ ان کی تحریریں اردو نثر کے حسن، تہذیب، مزاح، اور فکری پختگی کی خوبصورت مثال ہیں۔ ان کے بغیر اردو خاکہ نگاری اور مزاح نگاری کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ ان کا نام ہمیشہ اردو ادب کے سنہرے اور باوقار ابواب میں شامل رہے گا۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں