کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو میں قرآنی محاورات

اردو زبان کی تہذیبی اور فکری بنیادوں میں قرآن مجید کا گہرا اثر موجود ہے۔ اردو نثر اور نظم دونوں میں قرآنی محاورات کا استعمال نہ صرف ایک مذہبی یا روحانی وابستگی کی علامت ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ اردو زبان نے قرآن کے اسلوب، ترکیب اور بیانیہ اثر کو جذب کر کے اپنے اظہار کی وسعتوں کو بڑھایا ہے۔ قرآنی محاورات وہ تعبیرات یا ترکیبی جملے ہوتے ہیں جو قرآن مجید سے ماخوذ ہوں، اور جنہیں اردو ادیبوں، شاعروں، خطیبوں، اور دانشوروں نے اپنے اسلوب میں سجا کر ایک مخصوص معنوی پس منظر کے ساتھ استعمال کیا۔ یہ محاورات نہ صرف فصاحت و بلاغت کا نمونہ ہیں بلکہ ان کے ذریعے کسی خیال کو نہایت مختصر، بلیغ اور اثرانگیز انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً “صبر جمیل”، “قول معروف”، “نور علیٰ نور”، “عذاب الیم”، “قلب سلیم”، “عیسیٰ کی طرح بے خطا” جیسے محاورات اپنی اصل قرآنی شکل میں نہ صرف اردو ادب میں داخل ہوئے بلکہ اردو دان طبقے کی روزمرہ گفتگو، خطابت اور مکالمے کا بھی حصہ بن گئے۔ ان محاورات کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں نہ صرف ایک تہذیبی میراث پوشیدہ ہے بلکہ یہ زبان کے اس اسلامی و روحانی رشتے کو بھی اجاگر کرتے ہیں جو اردو کو دیگر زبانوں سے ممتاز کرتا ہے۔

اردو شاعری میں قرآنی محاورات کا استعمال خاص طور پر علامتی اور استعاراتی اظہار کے طور پر ملتا ہے۔ غالب، اقبال، اکبر الہ آبادی، فیض احمد فیض اور دیگر شعرا نے قرآنی تعبیرات کو نہایت شعوری طور پر اپنے اشعار میں شامل کیا تاکہ بیان میں روحانیت، گہرائی اور ثقافتی معنویت پیدا ہو۔ غالب کے اشعار میں “عرش”، “لوح و قلم”، “سجدہ”، “قیامت”، “دوزخ”، “جنت”، “صبر”، “توکل”، “ایوب” اور “یوسف” جیسے قرآنی الفاظ محاوراتی شکل میں بار بار آتے ہیں۔ اقبال کے یہاں تو پورا ایک فکری نظام قرآن سے ماخوذ نظر آتا ہے، جہاں وہ “نور” کو صرف ایک مادی شے نہیں بلکہ الہامی اور معنوی روشنی کے طور پر دیکھتے ہیں، جو انسان کو اپنے مقام و منصب سے آشنا کرتی ہے۔ “نور علیٰ نور” ان کے یہاں صرف ایک قرآنی محاورہ نہیں بلکہ فلسفۂ خودی کی روح ہے۔ اسی طرح “قول معروف” اور “قول سدید” جیسے قرآنی جملے اردو نثر میں ناصحانہ یا مصلحانہ انداز اپنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اردو خطابت میں یہ محاورات خاص طور پر مذہبی بیانیے میں ایک وقار اور تقدس پیدا کرتے ہیں۔ واعظین اور خطبا جب قرآن کی آیات سے ماخوذ تراکیب استعمال کرتے ہیں تو ان کا کلام محض لسانی چابکدستی نہیں بلکہ ایک روحانی ارتعاش بھی پیدا کرتا ہے۔

اردو نثر میں مولانا الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، مولانا آزاد، سید سلیمان ندوی، اور دیگر مذہبی و فکری نثر نگاروں نے قرآنی محاورات کو جس ندرت اور بلیغ انداز میں استعمال کیا، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن ان کے بیانیے کا نہ صرف ماخذ تھا بلکہ ایک فکری اور اسلوبیاتی حوالہ بھی تھا۔ حالی کے “مقدمہ شعر و شاعری” میں جب وہ قوم کی اصلاح کی بات کرتے ہیں تو ان کی زبان میں قرآنی آہنگ محسوس کیا جا سکتا ہے، مثلاً “امر بالمعروف و نہی عن المنکر” جیسی تعبیرات اصلاحی بیانیے کا حصہ بن جاتی ہیں۔ مولانا آزاد کی “تذکرہ” اور “غبار خاطر” جیسی تحریروں میں قرآنی محاورات محض ایک تزئینی عنصر نہیں بلکہ فکری تانا بانا بن جاتے ہیں۔ ان کے ہاں “انما الاعمال بالنیات”، “و ما علینا الا البلاغ”، “کل نفس ذائقۃ الموت”، اور “فبای آلاء ربکما تکذبان” جیسے جملے اس انداز میں بیان ہوتے ہیں کہ اردو قاری کے ذہن میں قرآن کی معنوی فضا تازہ ہو جاتی ہے۔

قرآنی محاورات کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے کہ یہ زبان میں معنوی گیرائی پیدا کرتے ہیں۔ عام اردو محاورے جہاں کسی روزمرہ تجربے یا لوک حکمت کا اظہار ہوتے ہیں، وہیں قرآنی محاورات ایک مذہبی، اخلاقی اور روحانی قدر کو ساتھ لے کر آتے ہیں۔ “صبر جمیل” کا مطلب صرف صبر نہیں بلکہ ایسا صبر ہے جو بغیر شکوے کے، کامل اعتماد کے ساتھ کیا جائے۔ “قلب سلیم” صرف دل کی صفائی کا استعارہ نہیں بلکہ وہ قلبی حالت ہے جو رب کی بارگاہ میں قبولیت کا معیار بنتی ہے۔ اردو زبان میں ان محاورات کا شامل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ زبان اپنے ارتقائی سفر میں مذہبی روایت کو محض حوالہ یا پس منظر کے طور پر نہیں بلکہ ایک شعوری انتخاب کے طور پر اپناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو صحافت، خطابت، مذہبی نصوص، اور ادب سب میں یہ محاورات مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہوتے ہیں اور قاری یا سامع پر ایک خاص فکری اور جذباتی اثر ڈالتے ہیں۔

یہ بھی قابل غور ہے کہ اردو زبان میں بعض قرآنی محاورات مخصوص حالات کے اظہار کے لیے علامتی استعمال میں آتے ہیں۔ مثلاً “یوم الحساب” عام طور پر کسی فیصلے یا احتساب کے دن کے لیے بولا جاتا ہے، “دوزخ کا منظر” کسی انتہائی اذیت ناک صورت حال کے لیے، اور “نیکی کر دریا میں ڈال” جیسا محاورہ اگرچہ لغوی طور پر قرآن کا نہیں، مگر اس کی فکری جڑیں قرآنی تعلیمات میں پیوست ہیں جہاں نیکی کو اجر کی طلب کے بغیر انجام دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسی طرح “اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے” جیسی تعبیرات قرآنی اصولِ عدل کی عکاسی کرتی ہیں، حالانکہ یہ الفاظ بعینہ قرآن میں نہیں، مگر مفہوم وہی ہے۔ یہ محاورات اردو معاشرتی زبان کا وہ حصہ بن چکے ہیں جو قرآن کے فکری و اخلاقی پیغام کا عام فہم ترجمہ ہیں۔

اردو ڈرامے، ناول، اور افسانے میں بھی قرآنی محاورات کا استعمال نہایت بلیغ اور موزوں انداز میں کیا گیا ہے۔ بانو قدسیہ، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب جیسے ادیبوں کی نثر میں قرآنی محاورات صرف اخلاقی جملے نہیں بلکہ کرداروں کی سوچ اور مکالموں کے اثر کو گہرائی عطا کرتے ہیں۔ اشفاق احمد کے “زاویہ” میں “رب کی رضا میں راضی رہنا” یا “اللہ کے فیصلوں پر یقین” جیسے جملے قرآنی تعلیمات کی معنوی جھلکیاں ہیں، جو اردو زبان کی ادبی فضا کو روحانی رنگ عطا کرتی ہیں۔ بانو قدسیہ کے ناول “راجہ گدھ” میں بھی “حرام و حلال رزق” کے قرآنی تصورات کو علامتی پیرائے میں بیان کیا گیا ہے، جہاں محاورات فکری استدلال کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اردو زبان میں قرآنی محاورات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ زبان کو تقدس بخشتے ہیں۔ وہ زبان جس میں قرآن کی تعبیرات شامل ہوں، اس میں ایک خاص وقار، سنجیدگی، اور معنوی صداقت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی زبان بنی بلکہ اس کے ذریعے اسلامی علوم و معارف کی ایک نئی دنیا وجود میں آئی۔ اردو مترجمین قرآن، مفسرین، اور محدثین نے قرآن کو جس سلیقے سے اردو میں بیان کیا، اس کا اثر عام اردو تحریر اور بول چال تک میں دکھائی دیتا ہے۔ ہر چند کہ بعض لوگ اسے عربی یا فارسی اثر کا نتیجہ گردانتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو نے قرآن سے جو محاوراتی، فکری، اور اسلوبی روشنی حاصل کی ہے، وہ اس کی اپنی زبان دانی کی ایک جہت بن چکی ہے۔

نتیجتاً، اردو میں قرآنی محاورات صرف لسانی اضافہ نہیں بلکہ ایک فکری، تہذیبی اور روحانی سرمایہ ہیں۔ یہ محاورات اس زبان کو قرآن سے جوڑتے ہیں، اس کے اظہار کو اثرانگیز بناتے ہیں، اور قاری یا سامع کو ایک دینی اور اخلاقی فضا میں لے جاتے ہیں۔ ان محاورات کی معنوی گہرائی، تہذیبی پس منظر، اور لسانی حسن اردو زبان کو ایک منفرد حیثیت عطا کرتے ہیں۔ اردو ادب میں ان محاورات کا استعمال نہ صرف اس کے اسلامی شعور کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ زبان کے اس مخصوص شعری و نثری مزاج کو بھی ظاہر کرتا ہے جس نے اردو کو ایک روحانی و اخلاقی سطح پر بلند کیا ہے۔ آج بھی اردو خطابت، صحافت، ادب اور روزمرہ کی گفتگو میں جب قرآنی محاورہ استعمال ہوتا ہے تو وہ صرف ایک فقرہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی تسلسل کا مظہر بن جاتا ہے، جس کے پیچھے صدیوں کی فکری تربیت اور دینی وابستگی کارفرما ہوتی ہے۔ ان محاورات کو محفوظ رکھنا، سمجھنا، اور درست سیاق میں استعمال کرنا اردو زبان کی روحانی اساس کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے، اور یہی اس زبان کی سب سے بڑی انفرادیت اور طاقت ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں