اردو ادب کی تاریخ میں بہت سے ایسے شعرا گزرے ہیں جن کی فکری و فنی خدمات وقت کی گرد میں دب کر رہ گئیں، ان کی شاعری کاغذ پر تو موجود تھی مگر اشاعت کے مراحل سے نہ گزر سکی۔ ان میں سے ایک اہم نام عبدالعزیز فطرت کا بھی ہے، جنہیں اردو شاعری کے خاموش مگر پختہ گو شعرا میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان کے غیر مطبوعہ کلام کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ہمیں اس بات کا شعور دیتا ہے کہ اردو ادب میں بہت سا قیمتی مواد ابھی بھی ادبی تحقیق کا منتظر ہے۔ عبدالعزیز فطرت کے اشعار میں جو تہہ داری، لسانی صفائی، جذبوں کی شدت، اور سماجی شعور پایا جاتا ہے، وہ انہیں اپنے ہم عصر شعرا کی صف میں نہ صرف ممتاز کرتا ہے بلکہ ان کے غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت کو ناگزیر بنا دیتا ہے۔
عبدالعزیز فطرت کی شاعری کا سب سے اہم پہلو ان کا سادہ مگر مؤثر اندازِ بیان ہے۔ ان کے کلام میں تصنع اور تکلف کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ انہوں نے اپنے خیالات کو نہایت رواں اور شستہ زبان میں بیان کیا ہے۔ ان کے غیر مطبوعہ کلام میں جو مجموعے دستیاب ہیں، ان میں غزل، نظم، قطعہ، رباعی اور ہائیکو جیسے اصنافِ سخن شامل ہیں۔ ان کی غزلوں میں روایت سے وابستگی بھی نظر آتی ہے اور جدت کا عنصر بھی دکھائی دیتا ہے۔ عشق مجازی اور عشق حقیقی کے مضامین کے ساتھ ساتھ انہوں نے انسانی رشتوں، معاشرتی الجھنوں، طبقاتی نظام، اور استحصالی قوتوں کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ ان کے اشعار میں جمالیاتی حسن کے ساتھ ساتھ فکری گہرائی بھی موجود ہے۔
مثال کے طور پر ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
جو تیشہ زن تھے وہی آج میرِ کارواں ہیں،
بنے ہیں رہنما وہ جو راہزن تھے کل تلک۔
یہ شعر نہ صرف سیاسی بصیرت کا حامل ہے بلکہ اس میں ماضی و حال کی سیاسی صورتِ حال پر ایک جامع طنزیہ تبصرہ بھی ہے۔ عبدالعزیز فطرت کے غیر مطبوعہ کلام میں اس نوع کے اشعار بکثرت ملتے ہیں، جو ان کے مشاہدے کی گہرائی اور ان کے فکری وقار کا ثبوت ہیں۔
ان کے ہاں موضوعاتی تنوع بھی خاصا وسیع ہے۔ ان کی شاعری میں روایتی عشقیہ موضوعات کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کے مسائل جیسے مہنگائی، کرپشن، بےروزگاری، مذہبی منافرت، اور عالمی سیاست کے اثرات کا عکس بھی نمایاں ہے۔ ان کا شعری اسلوب اگرچہ روایت سے جڑا ہوا ہے مگر زبان کی تازگی اور لہجے کی ندرت ان کی انفرادیت کو نمایاں کرتی ہے۔
ان کے غیر مطبوعہ کلام میں ہمیں کئی ایسی نظمیں بھی ملتی ہیں جن میں انھوں نے تہذیبی انحطاط اور ثقافتی زوال پر کرب کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی ایک نظم میں یہ اشعار شامل ہیں:
چلو کہ شہرِ امید میں اندھیرے بڑھتے جاتے ہیں،
چراغِ دل کو بچا لو کہیں ہوا نہ چھین لے۔
یہ اشعار نہ صرف فنی پختگی کا نمونہ ہیں بلکہ یہ اس درد کی نمائندگی کرتے ہیں جو ایک حساس شاعر اپنے معاشرے کی زبوں حالی پر محسوس کرتا ہے۔ عبدالعزیز فطرت کی نظموں میں بھی ایک خاص ربط اور موضوعاتی وحدت موجود ہے، جو ان کے فن کو استحکام عطا کرتی ہے۔
تحقیقی نقطۂ نظر سے ان کے غیر مطبوعہ کلام کا مطالعہ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں ہمیں ان کے فکری ارتقاء کا نقشہ بھی ملتا ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری میں جہاں رومانویت کا غلبہ نظر آتا ہے، وہیں بعد کے کلام میں فلسفیانہ رجحانات، تصوف کی جھلک، اور انقلابی شعور کی آمیزش دکھائی دیتی ہے۔ وہ کربِ عصر کے شاعر بھی ہیں اور امیدِ فردا کے نقیب بھی۔ ان کے غیر مطبوعہ کلام میں بعض ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جو غالب، اقبال اور فیض جیسے شعرا کی شعری روایت سے جڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
تنقیدی زاویے سے دیکھا جائے تو عبدالعزیز فطرت کا کلام کئی حوالوں سے قابلِ مطالعہ ہے۔ ایک طرف ان کا زبان و بیان نہایت سلیس اور اثر انگیز ہے تو دوسری طرف ان کے اشعار میں علامات، تلمیحات اور استعارات کی عمدہ کاریگری بھی ملتی ہے۔ وہ صنائع و بدائع کے استعمال میں حد درجہ احتیاط برتتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا کلام سادہ ہونے کے باوجود معنی خیز اور پراثر بن جاتا ہے۔ انہوں نے عروضی اعتبار سے بھی مختلف بحور کو آزمایا ہے اور ہر صنف میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔
ایک اور پہلو جو ان کے غیر مطبوعہ کلام کو تحقیقی لحاظ سے اہم بناتا ہے وہ ان کی شاعری میں مقامی رنگ اور دیہی زندگی کا عکس ہے۔ وہ شہری شعرا کی طرح صرف بلند و بانگ نعروں تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان کا کلام زمینی سچائیوں سے جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں لوک رنگ، دیہی محاورے، اور روزمرہ کی بول چال کا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے کلام کو عوامی مقبولیت مل سکتی ہے بلکہ اردو شاعری کے دامن کو بھی وسعت حاصل ہوتی ہے۔
ایک اور اہم بات جو عبدالعزیز فطرت کے غیر مطبوعہ کلام سے متعلق ہے وہ ان کی خود ساختہ گمنامی ہے۔ انہوں نے شہرت کی خواہش کو اپنی ذات پر غالب نہیں آنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی اشاعت میں تاخیر ہوئی۔ تاہم ان کا یہ جذبۂ اخلاص قابلِ قدر ہے کہ انہوں نے صرف ادب کی خدمت کو اپنا نصب العین بنایا اور مادّی فوائد کو نظرانداز کر کے شاعری کو عبادت کا درجہ دیا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے غیر مطبوعہ کلام کو مرتب کیا جائے، اس پر باقاعدہ تحقیق ہو، اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے، اور ادب کے قارئین تک اس کو پہنچایا جائے۔ ان کی شاعری نہ صرف جمالیاتی لذت سے لبریز ہے بلکہ فکری بالیدگی کا بھی ذریعہ ہے۔ اگر ان کے کلام کو یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالوں کا موضوع بنایا جائے تو اس سے نہ صرف نئی نسل ان کی فکری وراثت سے روشناس ہو گی بلکہ اردو ادب کا دامن بھی وسیع تر ہو جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ عبدالعزیز فطرت کے غیر مطبوعہ کلام کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ اردو شاعری کی نئی جہتوں کو آشکار کرتا ہے۔ ان کا کلام فکری، فنی اور تہذیبی حوالوں سے نہایت وقیع اور بھرپور ہے۔ ان کی شاعری میں صداقت، سادگی، فطری روانی، فکری عمق اور جمالیاتی حسن کی ایسی آمیزش ہے جو انہیں اردو ادب کے اہم شعرا کی صف میں شامل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کی ادبی خدمات کو محفوظ کرنا اور عام قارئین تک پہنچانا آج کی علمی و ادبی ضرورت ہے۔