کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو ادب اور کشمیر

اردو ادب میں مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ نہایت حساس، جذباتی اور فکری انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی کشمیر ایک ایسا تنازع بن کر ابھرا جس نے نہ صرف سیاسی محاذ پر طویل کشمکش کو جنم دیا بلکہ اردو ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں اور دانشوروں کے اذہان کو بھی مسلسل متاثر کیا۔ کشمیر محض ایک جغرافیائی تنازع نہیں بلکہ ایک تہذیبی، انسانی، تاریخی اور جذباتی مسئلہ ہے جسے اردو ادب نے اپنی تمام اصناف میں جگہ دی ہے۔ چاہے وہ شاعری ہو یا افسانہ، ڈراما ہو یا ناول، ہر صنف میں کشمیری عوام کی جدوجہد، قربانیاں، دکھ، محرومیاں اور ان کا استقامت سے لبریز کردار اردو ادب کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔ اقبالؔ سے لے کر فیضؔ، احمد ندیم قاسمی، حبیب جالب، پروین شاکر، جلیلؔ عالی، عباس تابش، محبوب تابش، اور نئے نسل کے کئی شاعروں نے کشمیر کو ایک استعارہ، ایک مظلوم قوم کی پکار، اور ایک عالمی ضمیر کی آزمائش کے طور پر اپنے فن میں سمویا ہے۔ اقبال نے ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ جیسی نظم میں کشمیر کے حسن کو گایا اور اس کے سیاسی و قومی تشخص کو اجاگر کیا۔ فیض نے ’’ہم دیکھیں گے‘‘ جیسی نظموں میں کشمیری عوام کی آزادی کی امیدوں کو تقویت بخشی اور حبیب جالب نے اپنے انقلابی لب و لہجے میں کشمیریوں کے لیے عالمی ضمیر کو للکارا۔ کشمیر اردو شاعری میں صرف ایک مسئلہ نہیں بلکہ ایک مکمل استعارہ ہے جو درد، حسن، جدوجہد اور انسانی وقار کا پیکر بن چکا ہے۔

اردو افسانے میں بھی کشمیر کا موضوع نمایاں طور پر ابھرا ہے۔ انتظار حسین، غلام عباس، ساجدہ زیدی، سلام بن رزاق، علی امام نقوی اور دیگر افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں کشمیری عوام کے جذبات، مقامی ثقافت، بربادی اور ہجرت کے مسائل کو بیان کیا ہے۔ بعض افسانے براہِ راست کشمیر کی جدوجہد آزادی سے متعلق ہیں جبکہ بعض میں استعاراتی انداز اپنایا گیا ہے۔ ایک جانب ان افسانوں میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں اجڑتے گھرانوں کا المیہ ہے تو دوسری جانب ان میں انسانی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ذہنی کرب کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ سلام بن رزاق کا افسانہ ’’بارود کی مہک‘‘ ہو یا ساجدہ زیدی کے مختصر بیانیے، سب کشمیر کی خاموش چیخوں کو زبان دیتے ہیں۔ کشمیر میں عورت کی حالت، بچوں کی بے بسی، اور بزرگوں کی پرانی یادیں ان افسانوں کا بنیادی حوالہ بنتی ہیں۔

اردو ڈراما اور ناول میں کشمیر کا ذکر نسبتاً کم مگر مؤثر انداز میں آیا ہے۔ عشرت رحمانی، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور نسیم حجازی نے اپنے بیانیے میں کشمیر کے حوالے سے قومی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ نسیم حجازی کے ناولوں میں مسلم قومیت کا تصور کشمیر کی قربانیوں سے جُڑ کر سامنے آتا ہے، جبکہ بانو قدسیہ نے انسان دوستی، صلح و امن کے جذبات کو اپنے بیانیے میں سمویا ہے۔ اگرچہ اردو ناول میں کشمیر کو ایک مکمل موضوع کے طور پر کم برتا گیا ہے، لیکن اب نئی نسل کے ناول نگار جیسے عمیرہ احمد اور راحت وفا اس جانب متوجہ ہو رہے ہیں اور کشمیر کو صرف مظلومیت نہیں بلکہ مزاحمت، ثقافت اور شناخت کے حوالے سے بھی بیان کر رہے ہیں۔

اردو نثر، خاص طور پر کالم، مضامین اور سفرناموں میں کشمیر پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ یوسف صلاح الدین، ابوالکلام آزاد، مجید نظامی، اور ارشاد احمد حقانی جیسے لکھاریوں نے کشمیر کے مسئلے کو تاریخی، دینی، سیاسی اور انسانی زاویوں سے بیان کیا۔ اردو اخبارات اور رسائل میں شائع ہونے والے کالم کشمیریوں کی تازہ ترین حالت، ان کی جدوجہد اور بین الاقوامی ردعمل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اردو سفرنامہ نگاروں نے کشمیر کی خوبصورتی، اس کی تہذیبی وراثت اور عوام کی سادگی کو سراہا، مگر ساتھ ہی ساتھ وہاں کی زخم خوردہ فضا، کرفیو زدہ زندگی، اور فوجی محاصروں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ احمد ندیم قاسمی اور کرشن چندر جیسے لکھنے والوں نے کشمیر کی حالت کو بہت قریب سے محسوس کیا اور اس کے درد کو قلمبند کیا۔

اردو ادب میں کشمیر کے ساتھ ایک تہذیبی، روحانی اور قومی تعلق بھی نظر آتا ہے۔ کئی شعرا نے کشمیر کو “جنتِ نظیر” کہا، کئی نے اسے “مادرِ وطن کا تاج” قرار دیا، اور کئی نے اسے ملتِ اسلامیہ کی غیرت اور شناخت کا استعارہ بنایا۔ کشمیر کے حسن کے ساتھ ساتھ اس کے زخموں کا بیان بھی برابر شدت سے ہوا ہے۔ اردو ادب کے ذریعے کشمیریوں کی آواز دنیا تک پہنچی، ان کے حقِ خود ارادیت کی حمایت ہوئی، اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ایک ادبی روایت بن گئی۔ خاص طور پر ہر سال پانچ فروری کو منائے جانے والے یومِ یکجہتی کشمیر پر اردو ادب میں جو تحریریں اور اشعار منظر عام پر آتے ہیں، وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر ادبی زبان میں پیش کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ اردو ادب نے کشمیر کو صرف ایک سیاسی مسئلہ سمجھ کر نہیں برتا بلکہ اسے انسانیت، تہذیب، ثقافت، شناخت اور جدوجہد کا استعارہ بنا کر پیش کیا۔ اردو ادب میں کشمیر کی گونج درد کی صورت بھی ہے، دعا کی صورت بھی، نعرہ بھی ہے، اور صدائے احتجاج بھی۔ کشمیریوں کی بے بسی، مزاحمت اور قربانی کو اردو ادب نے جو مقام دیا ہے، وہ دنیا کی کسی اور زبان میں اس درجے پر نظر نہیں آتا۔ یہ اردو زبان اور اس کے ادیبوں کا اخلاقی، فکری اور قومی فرض بھی تھا، اور ان کی تاریخی بصیرت بھی۔ کشمیر اردو ادب میں صرف ایک مقام نہیں، بلکہ ایک مستقل مزاجی، ایک شعور، ایک امید، اور ایک غیرت کا استعارہ ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں