کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

کلام اقبال کے پشتو تراجم

علامہ محمد اقبال کی شاعری برصغیر کے تمام فکری، تہذیبی اور ادبی حلقوں میں ایک مرکزی مقام رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات کے ذریعے اسلامی فکر، خودی، احیائے ملت، حریت و بیداری اور اجتماعی شعور کی جو شمع روشن کی، اس کی روشنی اردو، فارسی اور دیگر زبانوں کے ادیبوں، شاعروں اور مفکروں تک پہنچی۔ اقبال کی شاعری کا امتیاز یہ ہے کہ وہ صرف ایک خاص طبقے تک محدود نہیں بلکہ اس کی معنویت عوامی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی مسلم ہے۔ اسی وجہ سے اقبال کا کلام اردو اور فارسی کی حدود سے نکل کر دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا، اور انہی میں ایک اہم زبان پشتو بھی ہے۔ پشتو ایک قدیم اور باوقار زبان ہے جس میں فکری بالیدگی اور شعری روایت موجود ہے۔ جب اقبال کا کلام پشتو میں منتقل ہوا تو نہ صرف اس کے فکری اور جمالیاتی پہلو محفوظ رہے بلکہ اس نے پشتو زبان کے شعری ذخیرے میں بھی ایک گراں قدر اضافہ کیا۔

پشتو میں اقبال کے کلام کے ترجمے کی ابتدا بیسویں صدی کے وسط میں ہوئی۔ اقبال کی زندگی میں ہی ان کے خیالات سرحدی علاقوں میں اثر انداز ہو چکے تھے، خاص طور پر ان کی وہ نظمیں جن میں اسلامی وحدت، مسلم نوجوانوں کی کردار سازی، اور ماضی کی بازیافت کا ذکر تھا، انہیں پشتون علماء، مفکرین اور نوجوانوں نے نہایت شوق سے پڑھا۔ ان کے خیالات نے پشتو خواں علاقوں میں ایک نیا فکری تحرک پیدا کیا۔ مگر باقاعدہ ترجمہ کا سلسلہ بعد ازاں اس وقت شروع ہوا جب پشتو کے بعض علم دوست مترجمین نے اقبال کے پیغام کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

پشتو میں اقبال کے تراجم کا مقصد محض اشعار کا لفظی روپ دینا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک فکری اور تہذیبی رابطہ بھی تھا۔ مترجمین نے کوشش کی کہ اقبال کے خیالات کی وہی حرارت، وہی وجدانی کیفیت، اور وہی انقلابی روح پشتو اشعار میں منتقل ہو۔ اس عمل میں جہاں کئی چیلنجز تھے، جیسے زبان کی ساخت، استعاراتی رنگ، اور فلسفیانہ گہرائی، وہاں مترجمین کی ادبی بصیرت اور تہذیبی وابستگی نے ان مشکلات کو قابلِ فہم ترجمے میں بدل دیا۔

پشتو زبان میں اقبال کے ترجمے کے حوالے سے بعض اہم نام سامنے آتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نام عبدالاکبر خان خٹک کا ہے جنہوں نے “اقبال آو پشتو” کے نام سے اقبال کے منتخب کلام کا نہایت دلنشین اور فکری ترجمہ پیش کیا۔ ان کے ترجمے میں نہ صرف اقبال کی زبان کی لطافت جھلکتی ہے بلکہ پشتو کی شعری روایت کا ذائقہ بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ اسی طرح پروفیسر ابراہیم خلیل، مولوی عبدالروف، اور محمد اقبال خلیل نے بھی اقبال کے مختلف مجموعہ ہائے کلام، مثلاً “بانگِ درا”، “بالِ جبریل” اور “ضربِ کلیم” سے منتخب نظموں کا پشتو میں ترجمہ کیا۔ ان کے ترجمے محض الفاظ کی تبدیلی نہیں بلکہ معانی کے جوہر کی بازیافت تھے، جو اس وقت تک ممکن نہ ہوتے جب تک مترجم اقبال کی فکر کا گہرا فہم نہ رکھتا ہو۔

اقبال کے کلام کے پشتو تراجم میں بعض پہلو ایسے بھی ہیں جو خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ مثلاً اقبال کی تصورِ خودی، جو ان کی شاعری کا مرکزی نکتہ ہے، اسے پشتو زبان کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچانا ایک فکری انقلاب سے کم نہیں۔ پشتو میں جب “خودی کو کر بلند اتنا” جیسے اشعار کا ترجمہ ہوا، تو ان کا اثر صرف الفاظ میں نہیں بلکہ فکر میں بھی محسوس ہوا۔ اس نے پشتون نوجوانوں میں انفرادی کردار، دینی بیداری اور اجتماعی خود شناسی کا جذبہ پیدا کیا۔ اسی طرح اقبال کی ملتِ اسلامیہ کے اتحاد کی تمنا، مغربی تہذیب پر تنقید، اور اسلامی نشأۃ ثانیہ کا خواب جب پشتو میں ڈھل کر سامنے آیا تو وہ صرف ترجمہ نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر بن گیا۔

ان تراجم کے ذریعے اقبال کا پیغام ان لوگوں تک بھی پہنچا جو اردو یا فارسی سے ناآشنا تھے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور افغانستان کے کچھ علاقوں میں پشتو بولنے والے عوام اقبال کی شاعری سے اسی وقت جڑ پائے جب یہ تراجم عام ہوئے۔ یہ صرف شعری ذوق کی تسکین نہیں تھی بلکہ ایک فکری انقلاب کا آغاز بھی تھا۔ اسکولوں، مدارس، اور تعلیمی اداروں میں جب اقبال کے کلام کو پشتو زبان میں پڑھایا جانے لگا تو اس نے فکری سطح پر ایک نئی نسل کو تیار کیا جو صرف تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ نظریاتی طور پر بیدار بھی تھی۔

پشتو تراجم کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں اقبال کے پیچیدہ افکار کو سادگی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ سادگی محض زبان کی سہولت نہیں بلکہ فہم کی گہرائی بھی ہے۔ مترجمین نے نہ صرف اقبال کے خیالات کو سمجھا بلکہ ان کی روح کو بھی محسوس کیا، اور یہی وجہ ہے کہ تراجم پڑھنے والے کو اقبال کی اصل فکر سے جوڑ دیتے ہیں۔ پشتو تراجم میں مخصوص محاورے، ضرب الامثال اور مقامی اصطلاحات کا استعمال بھی اقبال کے کلام کو علاقائی زمین سے جوڑتا ہے، اور اسے زندہ اور جاندار بنا دیتا ہے۔

ان تراجم کے اثرات صرف ادبی نہیں بلکہ سماجی اور تہذیبی بھی رہے ہیں۔ پشتو شاعری میں اقبال کے بعد کے دور میں جو شعرا سامنے آئے، ان میں کئی ایسے تھے جن پر اقبال کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ خوشحال خٹک کی روایت کے بعد اقبال کا شعور پشتو شاعری میں ایک نیا موڑ لایا، جس میں فکری بیداری، خودی، اور ملت پرستی نمایاں ہو گئی۔ اقبال کی فکر نے پشتو ادب کو نہ صرف موضوعات کے لحاظ سے وسعت دی بلکہ زبان میں بھی ایک خاص قسم کی فکری شائستگی پیدا کی۔

بعض ناقدین کے مطابق پشتو تراجم کے ذریعے اقبال کے بعض دقیق اور مجرد تصورات کی تفہیم ممکن ہوئی ہے۔ جب اقبال کی شاعری میں فلسفہ، تصوف، تاریخ اور سیاست ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں، تو انہیں عام قاری کے لیے قابلِ فہم بنانا ایک چیلنج ہوتا ہے۔ پشتو مترجمین نے اس پہلو پر خاص محنت کی اور بعض اوقات وضاحتی حواشی اور تمہیدات کے ذریعے قاری کو مدد فراہم کی۔ یہ انداز اردو میں کم نظر آتا ہے مگر پشتو میں یہ روایت نمایاں ہے۔

آخر میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ کلامِ اقبال کے پشتو تراجم ایک اہم ادبی، فکری اور تہذیبی کوشش ہے جس نے برصغیر کے مختلف لسانی اور ثقافتی حلقوں کے درمیان پل کا کام کیا ہے۔ ان تراجم نے اقبال کے پیغام کو صرف ایک طبقے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے عام آدمی کی زبان میں ڈھال کر عام فہم بنایا۔ یہ ترجمے اقبال کے اس خواب کی تعبیر کا حصہ ہیں جس میں وہ ملتِ اسلامیہ کو ایک مشترکہ فکری دھارے میں دیکھنا چاہتے تھے۔ آج بھی جب پشتون نوجوان اقبال کے اشعار کو اپنی زبان میں سنتے اور پڑھتے ہیں تو ان کے دل میں وہی جذبہ پیدا ہوتا ہے جو اقبال نے اپنے قلم سے جگایا تھا۔ اس طرح پشتو تراجم نے نہ صرف اقبال کے کلام کو زندہ رکھا بلکہ پشتو زبان کو بھی فکری بلندیوں سے آشنا کیا، اور یہی کسی ترجمے کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں