فارغ بخاری اردو کے ان ترقی پسند شعرا میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے نہ صرف شاعری میں انقلابی اور تہذیبی شعور کو فروغ دیا بلکہ اپنے تخلیقی وفور اور نظریاتی وابستگی کے ذریعے اردو ادب کو ایک نئی معنویت عطا کی۔ ان کا اصل نام محمد بشیر تھا، مگر ادبی دنیا میں وہ “فارغ بخاری” کے نام سے معروف ہوئے۔ ان کی پیدائش 1917 میں پشاور کے ایک تعلیم یافتہ اور بیدار مغز خاندان میں ہوئی، جہاں علم و ادب کا ذوق فطری طور پر نشو و نما پاتا تھا۔ بچپن ہی سے انھیں زبان و بیان سے گہری دلچسپی تھی، اور یہی شوق بعد میں انہیں اردو شاعری کی دنیا میں لے آیا۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کم عمری ہی میں ادبی اور نظریاتی تحریکوں سے وابستہ ہو گئے۔ ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی—وہ شاعر، مترجم، سیاسی کارکن، ترقی پسند مفکر اور صحافی بھی تھے، اور ان تمام حیثیتوں میں انہوں نے اپنی انفرادیت کو منوایا۔
فارغ بخاری کا شمار اردو ادب کے ان اہم ناموں میں ہوتا ہے جنہوں نے بیسویں صدی کے نصف اول میں ترقی پسند تحریک کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ انہوں نے نہ صرف ہندوستان بلکہ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی ادبی منظرنامے میں بھی اپنی شاعری اور فکر کے ذریعے نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کی شاعری میں جہاں سامراجی قوتوں کے خلاف بغاوت کا نعرہ سنائی دیتا ہے، وہیں مزدور، کسان، مظلوم اور پسماندہ طبقات کے حق میں آواز اٹھانے کا جذبہ بھی نظر آتا ہے۔ وہ فیض احمد فیض، مجاز، جوش، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی جیسے شعرا کے ہم عصر تھے، مگر ان کی شاعری کا لہجہ نسبتاً تند، براہِ راست اور نظریاتی طور پر زیادہ پرجوش تھا۔
فارغ بخاری کی شاعری کی نمایاں خصوصیت اس کا انقلابی مزاج اور جدوجہد سے بھرپور آہنگ ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں مظلوم طبقات کے دکھ، سامراج کے خلاف نفرت، اور آزادی کے خواب جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔ ان کی نظم “آزادی کے بعد” میں جو تلخی، مایوسی اور امید کے ملے جلے جذبات ہیں، وہ ان کے اندرونی کرب اور سماجی مشاہدے کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ فارغ بخاری نے آزادی کے خواب کو نہایت بلند حوصلہ اور خوش فہمی کے ساتھ دیکھا تھا، لیکن جب آزادی کے بعد بھی استحصالی قوتیں مضبوط ہوئیں اور عام آدمی کی زندگی میں بہتری نہ آئی تو ان کے لہجے میں ایک شدید احتجاج پیدا ہوا۔ یہی احتجاج ان کی شاعری کا بنیادی جوہر بن گیا۔
فارغ بخاری نے اپنے کلام میں علاقائی اور تہذیبی رنگوں کو بھی بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ ان کا تعلق پشاور سے تھا، لہٰذا پشتو زبان و ثقافت کی جھلک ان کے اشعار میں ملتی ہے۔ انہوں نے جہاں اردو شاعری میں اپنی انفرادیت قائم کی، وہیں علاقائی شعور کو بھی وسعت دی۔ ان کی شاعری میں وطن پرستی، انسانی مساوات، طبقاتی جدوجہد، اور استعماری طاقتوں کے خلاف ایک واضح بیانیہ موجود ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے نہ صرف نظم و نثر کا توازن قائم رکھتے تھے بلکہ قاری کو جھنجھوڑنے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ ان کے اشعار میں سادگی، روانی اور اثر انگیزی کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔
فارغ بخاری کے ادبی کارناموں میں ان کی شاعری کی کلیات، تراجم، اداریے اور سیاسی مضامین شامل ہیں۔ ان کی نظموں کا مجموعہ “لعل و گہر” اور “صلیب و قلم” اردو ادب میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی نظموں میں جو فکر و فن کا حسین امتزاج ہے، وہ انہیں محض نظریاتی شاعر نہیں بلکہ مکمل فنکار بھی بناتا ہے۔ ان کی تحریریں محض نعرہ نہیں بلکہ نعرے کے پیچھے چھپے درد اور نظریے کا بھرپور اظہار ہیں۔ ان کی بعض نظمیں آج بھی محنت کش طبقے کے لیے ایک تحریک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری میں مزدور کے پسینے کی خوشبو، کسان کے ہاتھوں کی لکیروں کی کہانی، اور طالب علموں کے خوابوں کی چمک واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
فارغ بخاری کا شمار ان اہل قلم میں ہوتا ہے جنہوں نے سامراجی، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف قلم اٹھایا۔ انہوں نے فکری استحصال اور ثقافتی غلامی کو نہایت شد و مد سے رد کیا اور اردو شاعری کو ایک ایسا اسلوب عطا کیا جس میں احتجاج بھی تھا، امید بھی، جدوجہد بھی تھی، جمالیات بھی۔ ان کی تحریریں آج بھی ترقی پسند تحریک کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ اگرچہ وہ کبھی کسی ذاتی شہرت یا انعام کے طلبگار نہیں رہے، مگر ان کا کام خود ان کی عظمت کی گواہی دیتا ہے۔ پاکستان میں جب ترقی پسند ادیبوں کو ریاستی اداروں کی طرف سے دباؤ، پابندی اور سنسرشپ کا سامنا تھا، تب بھی فارغ بخاری نے نظریاتی استقامت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے نہ صرف احتجاج کیا بلکہ نئی نسل کو بیدار بھی کیا۔
فارغ بخاری کے ساتھ اردو ادب نے ایک ایسا شاعر پایا جو نہ صرف لفظوں کا ہنر جانتا تھا بلکہ سماجی اور سیاسی شعور سے بھی لیس تھا۔ انہوں نے اردو شاعری کو طبقاتی کشمکش، استعماری ناانصافی، اور تہذیبی شناخت کے سوالات سے روشناس کرایا۔ ان کی خدمات صرف ادب ہی تک محدود نہ تھیں، بلکہ انہوں نے ترجمہ نگاری، صحافت اور درس و تدریس کے شعبے میں بھی گراں قدر کام کیا۔ ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی اور ان کے علمی و ادبی کام کا دائرہ وسیع تر تھا۔
فارغ بخاری کا انتقال 1991 میں ہوا، مگر ان کا تخلیقی ورثہ آج بھی زندہ ہے۔ ان کی شاعری آج کے سیاسی اور سماجی تناظر میں پہلے سے زیادہ معنی خیز ہو گئی ہے۔ سرمایہ داری، سامراج، نسل پرستی، اور عدم مساوات جیسے مسائل آج بھی زندہ ہیں، اور فارغ بخاری کے اشعار ان کے خلاف ایک مسلسل مزاحمت کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ان کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ سچا ادب کبھی فراموش نہیں ہوتا، اور جو شاعر اپنے عہد کی سچائیوں سے جڑتا ہے، وہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ روشن رہتا ہے۔
لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فارغ بخاری کی زندگی اور ادب نہ صرف ترقی پسند تحریک کی اساس تھے بلکہ اردو شاعری کی شعوری بلوغت کا بھی ایک اہم باب ہیں۔ ان کا احوال و آثار ہمیں صرف ایک شاعر کی سوانح نہیں بتاتے بلکہ ایک عہد کی فکری جنگ، نظریاتی پختگی، اور تخلیقی عظمت کا آئینہ دکھاتے ہیں۔ فارغ بخاری کے بغیر اردو ادب کا ترقی پسند سفر ادھورا محسوس ہوتا ہے، اور ان کی شاعری آئندہ نسلوں کے لیے بھی روشنی کا ایک ایسا مینار ہے جو ظلمتوں میں راستہ دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔