خاندانِ ولی اللہی برصغیر کی اسلامی، دینی، فکری اور علمی تاریخ میں ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس خانوادے کی علمی، فکری، دینی اور اصلاحی خدمات نے نہ صرف برصغیر میں بلکہ پوری اسلامی دنیا میں فکر و نظر کی نئی راہیں متعین کیں۔ اس خانوادے کے بانی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ (1703ء – 1762ء) تھے جنہوں نے ایک ایسے دور میں آنکھ کھولی جب مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہو چکا تھا، معاشرہ انحطاط کا شکار تھا، فرقہ واریت، جہالت، بدعت اور خارجی اثرات سے اسلام کی حقیقی روح دھندلا چکی تھی۔ ایسے پرآشوب دور میں شاہ ولی اللہ نے اجتہاد، قرآن فہمی، احادیث کی تدریس، فقہ اور تصوف کے امتزاج سے ایک ہمہ جہت علمی و فکری تحریک کی بنیاد رکھی جو ان کے بعد ان کے فرزندان، پوتوں اور شاگردوں کے ذریعے صدیوں تک جاری رہی۔ شاہ صاحب نے اسلامی فکر میں تجدید کی بنیاد رکھتے ہوئے قرآن حکیم کا فارسی میں ترجمہ کیا تاکہ عوام براہ راست کتابِ الٰہی سے فیض حاصل کر سکیں۔ ان کی کتاب “حجۃ اللہ البالغہ” نے اسلامی فلسفہ، فقہ، سماجیات اور عمرانیات کے میدان میں ایسی فکری بنیادیں فراہم کیں جن پر بعد کے علما نے علمی عمارتیں قائم کیں۔ شاہ ولی اللہ کی فکر کا نمایاں پہلو امت میں وحدت، اعتدال اور سنت کی اصل روح کو زندہ کرنا تھا۔ ان کے بڑے بیٹے شاہ عبدالعزیز دہلویؒ (1746ء – 1824ء) نہ صرف محدث و فقیہ تھے بلکہ ایک عظیم سیاسی بصیرت رکھنے والے رہنما بھی تھے۔ انہوں نے انگریزوں کی حکومت کو “دارالحرب” قرار دیا اور مسلمانوں کو مزاحمت کی راہ دکھائی۔ ان کا فتویٰ اس وقت کی سیاسی فضا میں بیداری کا ایک اہم سبب بنا۔ ان کی تدریس، تصنیف اور تلامذہ کا دائرہ پورے ہندوستان پر محیط تھا۔ ان کے شاگردوں میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید جیسے انقلابی اور مجاہدین شامل تھے جنہوں نے اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جہاد کیا۔ شاہ اسماعیل شہید (1779ء – 1831ء) نے “تقویۃ الایمان” اور “منصبِ امامت” جیسی بلند پایہ کتابیں لکھ کر شرک و بدعت کے خلاف جہادِ فکری کیا۔ وہ تصوف کو شریعت کی روح کے تابع مانتے تھے اور ان کا اندازِ خطاب عام فہم اور دل نشین تھا۔ اسی خانوادے میں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے قرآن پاک کا اردو ترجمہ کر کے زبانِ اردو کو دینی علوم کا ذریعہ بنایا۔ یہ ترجمے آج بھی اپنی معنویت، روانی اور فہم کی سادگی کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ خانوادہ ولی اللہی کی تعلیمات کا دائرہ صرف درس و تدریس تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے اسلامی سیاست، اقتصادیات، اخلاقیات اور معاشرت پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ ان کے ہاں علم و عمل کا امتزاج ملتا ہے۔ ان کی فکر کا جوہر یہ تھا کہ دین کو محض رسمی عبادات کا مجموعہ نہ سمجھا جائے بلکہ اس کا تعلق معاشرت، معیشت، سیاست اور عدل و انصاف سے بھی ہے۔ خانوادہ ولی اللہی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے ہاں اجتہادی جرأت، علمی جرات مندی اور اصلاحی فہم ہم آہنگ تھے۔ انہوں نے اختلافی مسائل کو نزاعی نہ بنایا بلکہ ان کے حل کے لیے اصولی بنیادوں پر غور و فکر کی دعوت دی۔ ان کا اسلوب نہایت متوازن، مدلل اور بصیرت افروز تھا۔ ان کی تحریروں میں نہ جذباتی پن ہے، نہ سطحیت، بلکہ علمی گہرائی اور فکری بلندی کا عکس ملتا ہے۔ اس خانوادے کے علما نے مغربی فکر سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا بلکہ ان کی کتابوں میں اس بات کا شعور ملتا ہے کہ مسلمان امت کو زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے، مگر اپنی روحانی و اخلاقی بنیادوں کو ترک کیے بغیر۔ ان کے ہاں نہ صرف تعلیم و تدریس کی روایت مضبوط رہی بلکہ مدارس، خانقاہوں، مساجد اور علمی مجالس کے ذریعے اسلامی علوم کو عام کیا گیا۔ انہوں نے حدیث، تفسیر، فقہ، عقائد، تصوف، فلسفہ، لغت اور تاریخ پر بے شمار کام کیا۔ ان کی تحریریں آج بھی مدارسِ دینیہ، جامعات اور اسلامی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ خانوادہ ولی اللہی نے جس فکری تحریک کا آغاز کیا، اس کے اثرات دکن سے پنجاب، بنگال سے خیبر تک محسوس کیے گئے۔ ان کی بدولت مسلمانانِ ہند میں ایک نئی روح پیدا ہوئی، جس نے بعد میں دیوبند، علی گڑھ، ندوہ، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور دیگر تحریکات کی فکری آبیاری کی۔ اس خانوادے کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے علما نے مختلف مسالک و مکاتب فکر کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی سعی کی، اور امت میں وحدت، اعتدال اور اخوت کا پیغام دیا۔ اس خانوادے کے کئی افراد انگریز حکومت کے خلاف مزاحمت کا نشان بنے۔ ان کی تحریروں میں جابروں کے خلاف آواز بلند کرنے کی قوت موجود تھی۔ وہ اسلام کو محض خانقاہی یا خانقاہی تصوف تک محدود نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کا دین ایک مکمل ضابطۂ حیات تھا جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ڈھالتا ہے۔ خانوادہ ولی اللہی کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں علمی خدمات انجام دیں۔ ان کی کتابیں آج بھی علمی حلقوں میں معتبر حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے تراجم اور شروحات نے زبان و بیان کی لطافت اور فصاحت کو ایک نیا جہت دی۔ اگر ہم اس خاندان کی خدمات کا جائزہ لیں تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی فکری تشکیل نو کی بنیاد رکھی، اور اسلام کے ہمہ گیر پیغام کو ایک مربوط اور سائنٹفک انداز میں پیش کیا۔ ان کے افکار نے جہاں سادہ عوام کے دلوں میں دین کی محبت راسخ کی، وہیں خواص اور علما کو بھی فکری و عملی رہنمائی فراہم کی۔ ان کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر خانوادہ ولی اللہی کا کردار اسلامی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی خدمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب علم، تقویٰ، اخلاص اور بصیرت ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو فکر و عمل کی ایسی تحریک جنم لیتی ہے جو صدیوں تک امت کی رہنمائی کرتی ہے۔ ان کی فکری میراث آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے اور ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے دین کو اسی جامعیت، توازن اور حکمت کے ساتھ اپنائیں، جس کی مثال خانوادہ ولی اللہی نے قائم کی۔
تذکرہ خانوادہ ولی اللہی
