کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

مولانا ظفر علی خان بحثیت شاعر و صحافی

مولانا ظفر علی خان اردو صحافت اور شاعری کی دنیا کی ایک ایسی تابندہ اور درخشندہ شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی علمی، ادبی، صحافتی اور قومی خدمات کے ذریعے اردو زبان و ادب کو ایک نئی جہت عطا کی۔ وہ برصغیر میں آزادی کی تحریک کے نہ صرف ایک سرگرم رہنما تھے بلکہ اردو زبان کے ایک ممتاز اور پراثر شاعر، بے باک صحافی، قادرالکلام نثرنگار اور عوامی مزاج کے خطیب بھی تھے۔ ان کی ذات میں ایک ایسا انقلابی جوش، فکری بالیدگی، اور ملی جذبہ کارفرما تھا جس نے انہیں محض قلم کا سپاہی نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور عملی مجاہد بنا دیا۔ مولانا کا تعلق ایک علمی اور صوفیانہ خاندان سے تھا۔ ان کے والد مولوی سراج الدین ایک بزرگ، دیندار اور فارسی و عربی کے عالم تھے۔ مولانا نے عربی، فارسی، اردو، انگریزی، اور دیگر علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی۔ انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم سے ان کی گہری وابستگی نے ان کی شخصیت کو فکری توازن عطا کیا۔ ابتدائی تعلیم نارنگ منڈی، وزیر آباد اور بعد ازاں علی گڑھ میں حاصل کی۔ ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد دکن، دہلی اور لاہور میں قیام کیا، لیکن ان کی اصل پہچان صحافت اور شاعری کے میدان میں بنی۔

مولانا ظفر علی خان کی صحافتی خدمات کا آغاز ’’زمیندار‘‘ اخبار سے ہوا جو ان کے والد نے جاری کیا تھا۔ بعد ازاں مولانا نے اسے قومی تحریک کا ترجمان بنا دیا۔ ’’زمیندار‘‘ صرف ایک اخبار نہیں تھا بلکہ ایک نظریاتی ادارہ بن گیا۔ اس کے ذریعے مولانا نے مسلمانوں میں سیاسی شعور، قومی حمیت اور دین سے وابستگی کا جذبہ بیدار کیا۔ ان کے اداریے نہایت مؤثر، دلنشین، جاندار اور مقصدی ہوتے تھے جن میں عوامی زبان و بیان کی سادگی اور زورِ استدلال کی طاقت شامل ہوتی۔ وہ قلم سے جہاد کے قائل تھے اور ان کے اداریے سامراج کے خلاف ایک اعلانِ بغاوت کی حیثیت رکھتے تھے۔ حکومتِ وقت نے کئی مرتبہ ان کے اخبار پر پابندی لگائی، انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں، لیکن وہ اپنے مشن سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے۔ ان کی صحافت میں مقصدیت، حبِ وطن، ملت کا درد، اور اسلامی غیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں نے صحافت کو ایک مقدس فریضہ سمجھا، نہ کہ محض ذریعہ معاش۔

شاعری میں مولانا کا طرزِ کلام حالی و اقبال کے مابین ایک انوکھا امتزاج پیش کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو قوم و ملت کی خدمت کے لیے وقف کیا۔ ان کے ہاں عشقِ رسولﷺ، امتِ مسلمہ کی بیداری، غلامی سے نجات، ہندوستان کی آزادی، اور انسان دوستی بنیادی موضوعات ہیں۔ ان کی نظموں میں ایک ایسا ولولہ، ایک ایسی حرارت اور ایک ایسا اخلاص ہے جو دلوں کو گرما دیتا ہے۔ وہ قومی اور ملی شاعری کے ایک بلند پایہ نمائندہ شاعر ہیں۔ ان کی زبان میں شکوہ نہیں، اقدام ہے؛ تاسف نہیں، ترغیب ہے؛ اور افسوس نہیں بلکہ امید و عزم کی طاقت ہے۔ ان کی شہرۂ آفاق نظمیں ’’جنگِ بلقان‘‘، ’’مسجدِ قرطبہ‘‘، ’’ترانۂ خلافت‘‘، ’’پیغامِ برلن‘‘، ’’ہندوستان کی صدائیں‘‘ وغیرہ، اس امر کی شاہد ہیں کہ ان کی شاعری محض تفننِ طبع نہیں بلکہ ایک فکری جہاد تھی۔

ان کے کلام میں اسلوب کی روانی، سادگی، بیانیہ قوت، عوامی فہم اور نعرہ انگیزی سب کچھ موجود ہے۔ وہ خطیبانہ لہجہ، جو ان کی نثر اور تقریر کا خاصہ تھا، ان کی شاعری میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ اسلوب میں کوئی تصنع نہیں، بلکہ سیدھی اور سادہ زبان میں بات کو اس شدت سے بیان کرتے ہیں کہ قاری یا سامع متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ان کی شاعری کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ براہِ راست دل پر اثر کرتی ہے۔ وہ مقصدی شاعر تھے، اس لیے ان کا کلام کسی ادبی موشگافی یا تصوف کی پرپیچ گلیوں سے نہیں گزرتا بلکہ سیدھی بات سیدھے انداز میں کہنے پر زور دیتا ہے۔

مولانا کی شخصیت میں دین و دنیا، مشرق و مغرب، ماضی و حال، سب کا ایک حسین امتزاج تھا۔ وہ محض ایک شاعر یا صحافی نہیں تھے بلکہ ایک مفکر، مبلغ، اور عملی سیاست دان بھی تھے۔ وہ خلافت تحریک کے فعال کارکن، تحریکِ پاکستان کے حامی، اور قائداعظم کے مداح تھے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی نااہلی کا بروقت ادراک کیا اور دو قومی نظریے کے ترجمان بنے۔ ان کا سیاسی شعور، ان کی قومی بصیرت، اور ان کی علمی گہرائی نے اردو صحافت کو ایسی بنیادیں فراہم کیں جو آج تک قائم ہیں۔ ان کی خطابت میں بھی وہی زور تھا جو ان کی نثر اور شاعری کا خاصہ تھا۔ جلسہ عام میں جب وہ تقریر کرتے تو مجمع پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔

ادبیات کے حوالے سے بھی ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اردو ادب کے ارتقائی مراحل، مسلمانوں کی علمی و ادبی وراثت، اور مغربی یلغار کے خلاف فکری مزاحمت کو بخوبی سمویا۔ ان کی نثر میں طنز و مزاح بھی ہے اور خطابت بھی، دردمندی بھی ہے اور تلخی بھی، لیکن سب کچھ ایک مقصد کے تحت ہے۔ وہ اردو کو محض اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی علامت سمجھتے تھے۔ ان کی تحریروں نے اردو صحافت کو ایک نظریاتی راستہ دیا اور شاعری کو بامقصد جہت عطا کی۔

ان کی زندگی ایک طویل جدوجہد سے عبارت ہے۔ وہ کبھی برطانوی سامراج سے مرعوب نہ ہوئے۔ انہیں کئی بار قید و بند، ضبطِ اشاعت، مالی نقصان، اور معاشرتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کی صداقت پر مبنی آواز کو کوئی دبا نہ سکا۔ ان کے مضامین آج بھی صحافت کے طلبہ کے لیے مشعلِ راہ ہیں اور ان کا کلام آج بھی اسی شدت سے پڑھا جاتا ہے جیسا اس وقت گونجا تھا۔ ان کی تحریروں میں وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ معنویت پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ وہ وقتی نہیں بلکہ دائمی اقدار کی ترجمانی کرتے ہیں۔

مولانا ظفر علی خان نے اردو صحافت کو حریت فکر، سچائی، ملت دوستی، اور مقصدیت عطا کی اور اردو شاعری کو ایک قومی آواز بنایا۔ ان کی ذات ایک دبستان کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے بغیر اردو صحافت اور قومی شاعری کی تاریخ نامکمل ہے۔ وہ ایک ایسے مردِ حر تھے جنہوں نے نہ صرف قلم سے بلکہ کردار سے بھی ثابت کیا کہ سچائی کا علم بلند رکھنے والے ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ محض ایک مضمون میں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ ان کے کارنامے آج کے صحافیوں، ادیبوں، اور مفکرین کے لیے مشعل راہ ہیں۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں