آزاد کشمیر میں اردو زبان و ادب کا فروغ ایک ایسا اہم موضوع ہے جس پر علمی اور تحقیقی سطح پر مزید توجہ دی جانی چاہیے، کیونکہ اس خطے نے تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حوالوں سے اردو زبان کی ترویج میں نہایت فعال کردار ادا کیا ہے۔ آزاد کشمیر چونکہ پاکستان کا وہ خطہ ہے جو لسانی و تہذیبی لحاظ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سنگم پر واقع ہے، اس لیے یہاں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں پوٹھوہاری، گوجری، پہاڑی، کشمیری اور ہندکو نمایاں ہیں۔ ان علاقائی زبانوں کی موجودگی کے باوجود اردو کو رابطے، تعلیم، حکومت، صحافت، عدلیہ اور ادب کے وسیلے کے طور پر اپنایا گیا، جس نے اسے نہ صرف رائج کیا بلکہ مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد آزاد کشمیر میں اردو کو بطورِ سرکاری زبان اپنایا گیا، اور اس کے ذریعے تعلیم، دفتری امور، اور ذرائع ابلاغ کے معاملات چلائے جانے لگے۔ اس حکومتی اقدام نے اردو کو دیگر زبانوں پر ترجیح دی اور مقامی عوام کی ایک بڑی تعداد اردو میں تعلیم حاصل کرنے لگی، یوں نئی نسل اردو سے مانوس ہوتی گئی اور یہ زبان ان کے ادبی اظہار کا ذریعہ بھی بنی۔ اردو ادب کی تدریس اسکولوں، کالجوں اور بعد ازاں یونیورسٹیوں میں منظم طریقے سے کی جانے لگی۔ میرپور، مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ، کوٹلی، سدھنوتی اور نیلم جیسے علاقوں میں اردو ادیبوں، شاعروں، معلمین اور محققین نے اپنے ادبی اظہار اور تنقیدی کاوشوں کے ذریعے اردو ادب کی نئ جہتیں متعارف کرائیں۔ آزاد کشمیر کی جامعات، خصوصاً یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر (مظفرآباد) اور میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (MUST) میں اردو زبان و ادب کے شعبے قائم کیے گئے، جہاں تحقیقی سرگرمیاں شروع ہوئیں، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر مقالہ جات تحریر ہونے لگے، اور علاقائی ادبی سرمایے کو اردو قالب میں ڈھالنے کا سلسلہ جاری ہوا۔ ان اداروں میں منعقد ہونے والے سیمینار، مشاعرے، اور کانفرنسیں اردو زبان کے فروغ میں معاون ثابت ہوئیں۔
آزاد کشمیر میں اردو شاعری نے بھی زبردست فروغ پایا، اور اس خطے کے شاعروں نے کلاسیکی اور جدید دونوں اسالیب کو اپنایا۔ حمد و نعت، غزل، نظم، آزاد نظم اور نثری نظم کے تجربات یہاں ہوئے، جن میں علاقائی مسائل، قدرتی آفات (خصوصاً 2005 کے زلزلے)، حب الوطنی، کشمیری شناخت، ماحولیاتی جمالیات اور ہجرت و غمِ جدائی جیسے موضوعات نمایاں رہے۔ کئی شاعروں نے اردو کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے کثیراللسانی تراجم کا سہارا لیا۔ مظفرآباد، میرپور، راولا کوٹ اور دیگر شہروں میں متعدد ادبی تنظیمیں قائم ہوئیں، جنہوں نے باقاعدہ ادبی نشستوں، مشاعروں اور تنقیدی نشستوں کا اہتمام کیا۔ ان تنظیموں میں “بزمِ فروغِ اردو”، “مجلسِ ترقی ادب”، “ادبی سنگت” اور “محفلِ ادب” جیسے پلیٹ فارمز شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف مقامی سطح پر تخلیق کاروں کو آواز دی بلکہ قومی ادبی دھارے سے بھی جوڑ دیا۔
صحافت کے میدان میں بھی اردو کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ آزاد کشمیر کے تمام اخبارات، رسائل اور سرکاری اشاعتیں اردو میں ہی شائع ہوتی ہیں۔ “صدائے کشمیر”، “شمالی علاقہ جات”، “کشمیر لنک” اور دیگر مقامی اخبارات نے اردو زبان کے فروغ میں کردار ادا کیا۔ ان میں مقامی قلمکاروں کے کالم، ادبی مضامین، تبصرے اور انٹرویوز شائع ہوتے ہیں جو زبان کے استعمال کو عوامی سطح پر لے آتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ، بالخصوص ریڈیو پاکستان مظفرآباد اور آزاد کشمیر ٹی وی چینل، اردو زبان میں خبریں، ڈرامے، تبصرے اور علمی پروگرام نشر کرتے ہیں، جنہوں نے اردو کو ایک موثر اور جاندار ابلاغی زبان کے طور پر مستحکم کیا ہے۔
آزاد کشمیر میں اردو نثر نے بھی ترقی کی راہیں اپنائیں۔ افسانہ نگاری، خاکہ نویسی، خودنوشت، تنقید، تحقیق، ترجمہ اور سوانح نگاری کے شعبوں میں کئی اہم نام سامنے آئے ہیں جنہوں نے مقامی حالات، کشمیری ثقافت، اجتماعی محرومیوں اور تحریکِ آزادی کے پہلوؤں کو اردو زبان میں بیان کیا۔ اردو زبان میں کشمیری لوک کہانیوں اور داستانوں کے تراجم نے نہ صرف علاقائی ثقافت کو محفوظ کیا بلکہ اردو کو نئے اسالیب اور اسلوبیاتی وسعتیں بھی عطا کیں۔ کئی مصنفین نے کشمیری معاشرے میں رونما ہونے والے سماجی، معاشی اور تہذیبی تغیرات کو اردو زبان میں نہایت عمدگی سے قلمبند کیا، جو اردو ادب کی علاقائی معنویت کا ثبوت ہے۔
علاوہ ازیں آزاد کشمیر میں اردو زبان پر جدید نظریات جیسے مابعد جدیدیت، مابعد استعماریت، تانیثیت، اور ثقافتی تنقید کی روشنی میں کام ہونے لگا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کا ادبی منظرنامہ صرف جمالیاتی سطح تک محدود نہیں بلکہ فکری لحاظ سے بھی بالغ النظر ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل تحقیق و تنقید میں دلچسپی لے رہی ہے، اور جامعات میں اردو پر ہونے والا کام اب بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ ہوتا جا رہا ہے۔
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر میں اردو زبان و ادب کا فروغ ایک مربوط، منظم اور کثیر جہتی عمل ہے جس میں حکومتی اداروں، تعلیمی تنظیموں، ادبی حلقوں، صحافتی ذرائع اور عام لوگوں نے اپنی سطح پر حصہ ڈالا ہے۔ اس خطے کی اردو خدمات نہ صرف قومی ورثے کا حصہ ہیں بلکہ وہ اردو کی بین الاقوامی شناخت کو بھی مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اردو زبان یہاں صرف ایک تعلیمی یا سرکاری زبان نہیں بلکہ تہذیبی اظہار، ادبی تخلیق، اور فکری مکالمے کا بنیادی وسیلہ بن چکی ہے، جو آنے والے وقت میں مزید فروغ پائے گا۔