احمد ندیم قاسمی اردو ادب کی وہ نابغۂ روزگار شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف نثر بلکہ نظم کے میدان میں بھی اپنی گہری چھاپ چھوڑی۔ وہ بیک وقت افسانہ نگار، نقاد، صحافی، مدیر، مترجم اور ایک پختہ کار شاعر تھے، مگر ان کی شاعری کا وصف یہ ہے کہ وہ خالص انسانیت، فطرت، درد، عصری شعور اور تہذیبی جمالیات کا ایسا حسین امتزاج پیش کرتی ہے جو قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی شاعری کا بنیادی موضوع انسان اور اس کے جذبات، اس کی جدوجہد اور اس کا کرب ہے۔ وہ انسان کو محض ایک حیوانِ ناطق نہیں بلکہ ایک جذباتی، فکری، اور روحانی وجود سمجھتے ہیں، جو کائنات کے جمالیاتی نظم کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ہمیں فطرت کی تصویریں، دیہی زندگی کی رمق، عشقِ خاکی اور عشقِ حقیقی کی کیفیات، اور سماجی مسائل کا گہرا شعور نظر آتا ہے۔
قاسمی صاحب کی شاعری میں جو تہذیبی وقار، زبانی شائستگی، اور فکری گہرائی پائی جاتی ہے وہ اُن کے وسیع مطالعے اور مشاہدے کی دین ہے۔ ان کے ہاں علامہ اقبال کی طرح قومی شعور، فیض احمد فیض کی طرح انقلابی جذبہ، اور میر و غالب کی طرح انسانی جذبات کا عمیق بیان موجود ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود ان کی شاعری کسی کی تقلید نہیں، بلکہ ان کا اسلوب نہایت منفرد، سادہ مگر دل نشین، اور دل و دماغ کو چھو لینے والا ہے۔ ان کی غزل ہو یا نظم، ہر صنف میں انہوں نے اپنی پہچان بنائی۔ خاص طور پر ان کی نظمیں جدید اردو نظم کے ارتقا میں ایک اہم سنگِ میل سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی نظم “محبت” ہو یا “مسافر”، “نیا زمانہ” ہو یا “گاؤں”، ہر ایک میں انسانی تجربے کا وہ سوز و گداز موجود ہے جو قاری کو خود اپنی کیفیت میں لے آتا ہے۔
قاسمی صاحب کی شاعری میں دیہی پس منظر کی جھلکیاں بہت نمایاں ہیں۔ چونکہ وہ خود ایک دیہی ماحول سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے ان کی شاعری میں کھیت، کھلیان، درخت، پرندے، ندیاں، مٹی، اور گاؤں کے سادہ لوگ بار بار نمودار ہوتے ہیں۔ لیکن ان اشعار میں محض منظر نگاری نہیں بلکہ دیہی زندگی کا فلسفہ، اس کی معصومیت، محرومیاں، اور سماجی نابرابری کا گہرا شعور بھی شامل ہے۔ ان کی شاعری کسی ایک طبقے یا مخصوص فکر کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ وہ پورے انسان کی، اس کے کرب، اس کے خوابوں، اور اس کے بکھرتے رشتوں کی شاعری ہے۔ ان کے یہاں عشق محض ایک روایتی موضوع نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر انسانی جذبہ ہے جو محبوب سے زیادہ انسانیت سے جڑتا ہے۔
قاسمی کی غزلیں روایتی اسلوب میں ہونے کے باوجود ایک نئی تازگی لیے ہوئے ہیں۔ ان کے اشعار میں زبان کی سادگی، جذبے کی شدت، اور اظہار کی وضاحت ایسی ہے کہ وہ کلاسیکی غزل کی روایت سے وابستہ ہونے کے باوجود جدید قاری کے دل کو چھو لیتے ہیں۔ ان کے اشعار میں استعارات اور علامات کا استعمال برمحل اور غیر مبالغہ آمیز ہوتا ہے، اور وہ شعر گوئی کو محض لفاظی نہیں بناتے بلکہ ایک تجربے، احساس یا نظریے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جیسے ان کا یہ شعر:
اک پَل میں زندگی بھر کی محرومیاں سمیٹیں
پھر وہ بھی کیا لمحہ تھا جب تُو نظر آیا
یہ شعر نہ صرف محبت کی شدت کو بیان کرتا ہے بلکہ اس میں محرومی، تمنا اور ایک روحانی کیف کا بھی احساس ملتا ہے۔ قاسمی صاحب کے ہاں عورت کا تصور بھی ایک منفرد پہلو رکھتا ہے۔ ان کی شاعری میں عورت صرف حسن کی علامت یا محبوبہ کی صورت میں نہیں آتی بلکہ ایک ماں، بہن، بیٹی اور ایک مظلوم وجود کے طور پر بھی ابھرتی ہے۔ ان کی کئی نظمیں عورت کے وقار، اس کی عظمت اور اس کے دکھوں کی عکاسی کرتی ہیں، جن میں ایک طرح کا نسائی شعور موجود ہے جو اردو شاعری میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کا ایک اور نمایاں پہلو ان کا سماجی شعور ہے۔ وہ طبقاتی نابرابری، معاشی استحصال، اور جبر کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، مگر ان کی آواز احتجاجی نعرے کی صورت میں نہیں بلکہ درد اور دردمندی کی شکل میں ابھرتی ہے۔ ان کی نظموں میں ہمیں غربت، بے بسی، مزدور کی محنت، کسان کی بدحالی اور عورت کی بے نوا زندگی جیسے مسائل کا نہایت انسانی اور ادبی انداز میں اظہار ملتا ہے۔ اس ضمن میں وہ ترقی پسند تحریک سے گہرا تعلق رکھتے تھے، لیکن ان کی شاعری محض انقلابی نعروں تک محدود نہ تھی بلکہ ایک عمیق داخلی صداقت کا اظہار تھی۔
ان کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کائناتی جمالیات سے رشتہ رکھتی ہے۔ درختوں کے ہلتے پتوں، آسمان پر چمکتے تاروں، پرندوں کی اڑان، بارش کی رم جھم، اور سورج کی کرنوں میں جو جمال ہے، قاسمی صاحب اسے شاعری میں سمونے کا فن خوب جانتے تھے۔ وہ قدرت کے مظاہر کو صرف منظر نہیں بناتے بلکہ ان میں معانی، جذبات، اور روحانی تجربات کی پرتیں کھولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری محض ادب نہیں بلکہ ایک مکمل حسی اور فکری تجربہ بن جاتی ہے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ احمد ندیم قاسمی بطور شاعر ایک ایسے ہمہ جہت ادیب ہیں جنہوں نے اردو شاعری کو انسان دوستی، فطرت پرستی، روحانی رفعت، اور سماجی شعور کی نئی جہتیں عطا کیں۔ ان کی شاعری دل کو بھی چھوتی ہے اور ذہن کو بھی جگاتی ہے، اس میں سوز بھی ہے اور ساز بھی، احتجاج بھی ہے اور جمال بھی۔ وہ جدید اردو شاعری کے ایسے ستون ہیں جن کے بغیر ہماری ادبی عمارت نامکمل رہے گی۔ ان کا اسلوب، فکر، جذبہ اور فنی شعور اردو شاعری میں ایک روشن روایت کی مانند ہے، جسے نہ صرف محفوظ رکھنا چاہیے بلکہ نئی نسل کو اس سے روشناس بھی کرانا چاہیے تاکہ شاعری کا اصل وقار، اس کی تہذیبی گہرائی اور انسانی معنویت برقرار رہ سکے۔