کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

سيد مظہر گيلانی شخصيت اور فن

سید مظہر گیلانی اردو نثر اور تحقیق و تنقید کی دنیا میں ایک منفرد اور معتبر نام ہیں، جنہوں نے اپنے علمی وقار، فکری بالیدگی، تہذیبی شعور اور لسانی شائستگی کے باعث اردو ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اُن کی شخصیت محض ایک استاد یا محقق کی نہ تھی، بلکہ وہ اردو زبان کے ایک تہذیبی محافظ، فکری رہنما اور اعلیٰ ادبی اقدار کے نقیب کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُن کا قلم نہ صرف اردو کی تحقیق میں رواں تھا بلکہ اردو نثر کے اسلوب اور بیان میں بھی ایسی ندرت اور وقار پایا جاتا تھا جو کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اُن کا ادبی شعور صرف کلاسیکی ادب تک محدود نہیں تھا، بلکہ اُن کی تحریروں میں عصرِ حاضر کی فکری پیچیدگیوں، معاشرتی تغیرات اور تہذیبی زوال کا بھرپور ادراک موجود ہے، جو اُن کے علم و مطالعے کی گہرائی کا عکاس ہے۔ سید مظہر گیلانی کی علمی شخصیت کا سب سے اہم پہلو ان کی تحقیقی دیانت، علمی تنوع، اور معروضی اندازِ تنقید ہے۔ اُنہوں نے اردو زبان کی تاریخی بنیادوں، اس کے ارتقائی مراحل، اور تہذیبی پس منظر پر جس گہرائی اور سلیقے سے قلم اٹھایا، وہ اُن کی محققانہ بصیرت کی دلیل ہے۔ وہ ادب کو محض جذباتی اظہار یا لسانی کھیل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اُن کے نزدیک ادب انسانی تجربے، اجتماعی شعور اور تہذیبی ارتقا کا آئینہ تھا۔ ان کی تحریروں میں تاریخ، سماجیات، لسانیات اور نفسیات کا ایسا ہم آہنگ امتزاج پایا جاتا ہے جس سے نہ صرف ادب کا کینوس وسیع ہوتا ہے بلکہ قاری کو غور و فکر کے نئے دریچے بھی کھلتے ہیں۔

سید مظہر گیلانی کا شمار اُن اہلِ قلم میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو تحقیق کو محض حوالہ جاتی علم یا اقتباسی انداز سے بلند کر کے ایک علمی فن بنایا۔ اُن کی کتابیں، مقالات اور تنقیدی تحریریں اُن کے غیر معمولی مطالعے، موضوعات پر گرفت اور زبان پر مہارت کی گواہی دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں ایسے اسلوب کو رواج دیا جس میں جذبات کی جگہ استدلال کو، اور مبالغے کی جگہ توازن کو اہمیت دی گئی۔ اُن کی تحریر کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ قاری کو الجھاتی نہیں بلکہ اسے سنوارتی ہے، اس کی فکری تشکیل کرتی ہے، اور ادب سے ایک سنجیدہ تعلق پیدا کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اُن کی تنقید کسی شخصیت پرستی یا گروہی تعصب سے پاک ہوتی ہے، اور وہ ہر ادیب یا شاعر کو اس کی فنی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔ اُن کے مقالات میں فیض احمد فیض ہو یا اقبال، حالی ہو یا شبلی، یا جدید رجحانات کے نمائندہ ادیب—وہ ہر ایک پر اپنے مخصوص، سنجیدہ اور گہری نگاہ سے تبصرہ کرتے ہیں۔

سید مظہر گیلانی نے اردو نثر کو جو تہذیبی شائستگی عطا کی، وہ اُن کی شخصیت کا براہِ راست عکس تھی۔ اُن کا اندازِ تحریر نہایت نفیس، متوازن، اور لسانی نزاکتوں سے آراستہ ہوتا تھا۔ ان کی نثر میں کہیں بھی سطحیت، تکرار یا زبان و بیان کی سختی نہیں ملتی، بلکہ ان کے جملے قاری کو فکری اعتبار سے روشنی بخشتے ہیں۔ اُنہوں نے اردو نثر میں فکری گہرائی اور معنوی تہہ داری کو ایسی خوبی سے شامل کیا کہ اُن کی تحریریں علمی ادب کی صفِ اول میں شمار کی جاتی ہیں۔ اُن کی تحریر میں نہ صرف فکری شدت بلکہ ادبی لطافت بھی شامل ہوتی تھی۔ اُن کے ہاں لفاظی کی بجائے مفہوم کی وضاحت، اور جذباتی اُبال کے بجائے استدلالی سکون پایا جاتا ہے۔ ان کا اسلوب نہ صرف علما، طلبہ اور محققین کے لیے رہنما ہے بلکہ عام قاری بھی اُن کی نثر میں فکر و نظر کی دنیا سے روشناس ہوتا ہے۔

سید مظہر گیلانی کی علمی زندگی کا ایک اہم باب ان کی تدریسی خدمات ہیں۔ وہ جامعہ پنجاب لاہور اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے، جہاں انہوں نے اردو ادب کی تدریس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی فکری تربیت کا بھی فریضہ انجام دیا۔ اُن کے شاگرد آج مختلف جامعات میں تدریس، تحقیق اور ادب کی خدمت میں مصروف ہیں، جو اُن کی تعلیمی بصیرت اور فکری اثرات کے زندہ ثبوت ہیں۔ وہ تدریس کو محض پیشہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری اور روحانی خدمت سمجھتے تھے۔ اُن کی کلاسز میں محض کتابیں نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ طالب علم کو ادب سے محبت، تحقیق سے رغبت، اور تنقید میں غیر جانب داری کی تربیت دی جاتی تھی۔ ان کی درس گاہ صرف علم کی نہیں بلکہ تہذیب و فکر کی درسگاہ تھی۔

اردو صحافت کے میدان میں بھی سید مظہر گیلانی کی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ وہ مختلف ادبی اور علمی جرائد سے وابستہ رہے اور اردو صحافت کو اس کا علمی وقار عطا کیا۔ اُن کے اداریے، کالمز اور تجزیاتی مضامین نہ صرف عصری مسائل کا ادراک رکھتے تھے بلکہ وہ قاری کو ایک مہذب، سنجیدہ اور متوازن رائے فراہم کرتے تھے۔ انہوں نے صحافت میں وہ روش اختیار کی جو ادب اور تہذیب سے جُڑی ہوئی ہو، اور جس میں سنسنی کے بجائے تحقیق، سنجیدگی، اور حقیقت پسندی ہو۔ اردو کے علمی و ادبی رسائل میں اُن کے مضامین کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ تحقیقی معیار کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔

سید مظہر گیلانی کی علمی خدمات کا ایک اور اہم پہلو اردو اور اسلامی تہذیب کا باہمی رشتہ ہے، جس پر وہ اکثر لکھتے تھے۔ اُن کی رائے میں اردو زبان اسلامی تہذیب کا ایک تمدنی مظہر ہے، اور اس کا تحفظ دراصل ایک تہذیب کے تحفظ کے مترادف ہے۔ وہ اسلامی ثقافت، روایات اور اخلاقی اقدار کو اردو زبان کے لسانی و فکری ڈھانچے کا لازمی حصہ سمجھتے تھے، اور اُن کے نزدیک اردو ادب کو جب تک اس تہذیبی ربط سے جوڑ کر نہ دیکھا جائے، اس کے مکمل معانی منکشف نہیں ہوتے۔ اسی بنا پر اُن کی تحریروں میں جہاں کلاسیکی ادب کی جھلک ملتی ہے، وہیں جدید فکری رجحانات کا ردّعمل بھی موجود ہوتا ہے۔

نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ سید مظہر گیلانی کی شخصیت اور فن اردو ادب کے اُس روشن باب کی نمائندگی کرتے ہیں جو سنجیدگی، وقار، تحقیق، فکری وسعت، اور ادبی اخلاقیات سے مزین ہے۔ اُن کی نثر میں ہمیں اردو کی تہذیبی روح، تحقیق کی سچائی، تنقید کا توازن، اور فکر کی بلندی ایک ساتھ نظر آتی ہے۔ وہ اُن معدودے چند اہلِ قلم میں سے تھے جنہوں نے اردو ادب کو صرف جمالیاتی یا لسانی سطح پر نہیں بلکہ ایک فکری، اخلاقی اور تمدنی سطح پر بھی سیراب کیا۔ آج جب اردو ادب سطحیت، بازاری پن، اور فوری شہرت کے دلدل میں گِھرا ہوا نظر آتا ہے، تو سید مظہر گیلانی جیسے ادیبوں کی ضرورت اور اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اُن کی تحریروں کا مطالعہ صرف ادبی ذوق کی تسکین نہیں بلکہ ذہنی تربیت اور فکری تطہیر کا بھی وسیلہ ہے۔ لہٰذا اردو ادب میں اُن کی خدمات کو ایک مستقل حوالہ، ایک علمی روایت اور ایک تہذیبی روشنی کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں