اردو زبان میں ٹیلی ویژن ڈرامے کی روایت بیسویں صدی کے وسط میں اُس وقت شروع ہوئی جب پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کا آغاز 1964ء میں لاہور سے کیا گیا۔ ابتدا میں ٹی وی ایک نیا تجربہ تھا اور اس کا دائرۂ اثر محدود تھا، مگر جلد ہی یہ ذریعۂ ابلاغ قومی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے لگا اور ٹی وی ڈراما اردو زبان و ادب، معاشرتی شعور، ثقافتی اظہاریہ اور تہذیبی عکاسی کا طاقتور وسیلہ بن گیا۔ اردو ٹی وی ڈرامے نے جہاں عوامی تفریح کی نئی جہات متعارف کرائیں، وہیں اس نے ادبی اقدار، سماجی مسائل، طبقاتی کشمکش، نسائی شعور، قومی بیانیے، مزاحمتی رجحانات، اور انسانی جذبات کی گہرائی کو بھی نہایت موثر اور فنی انداز میں پیش کیا۔ ٹیلی ویژن کے اردو ڈراموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ہمیں اس صنف کے ارتقائی سفر، اسلوبیاتی تغیرات، مواد کے تنوع، اور سماجی اثرات کی گہرائی تک لے جاتا ہے، جو اردو ادب کے دائرہ کار کو وسعت دینے کا باعث بنے۔
ٹی وی ڈرامے کا آغاز جب ہوا تو اس کی بنیاد بنیادی طور پر ادبی ذوق پر رکھی گئی۔ ابتدائی ڈراما نگاروں میں اشفاق احمد، منو بھائی، بانو قدسیہ، احمد ندیم قاسمی، ہاجرہ مسرور، انتظار حسین، امتیاز علی تاج، حسینہ معین، اور دیگر ادیب شامل تھے جو خود افسانہ نگار، ناول نگار یا ڈراما نویس تھے۔ ان کی تخلیقات میں ادب کا معیار، زبان کی سلاست، تہذیبی وقار، اور فنی توازن نمایاں تھا۔ مثال کے طور پر اشفاق احمد کے “اُچّے برج لاہور دے”، یا بانو قدسیہ کے “پیا نام کا دیا”، یا حسینہ معین کے “تنہائیاں” اور “ان کہی” جیسے ڈرامے اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ابتدائی ٹی وی ڈراما محض تفریح نہیں بلکہ شعور کی بیداری، اخلاقی تربیت، اور ادبی جمالیات کا مکمل اظہاریہ تھا۔
تحقیقی طور پر دیکھا جائے تو اردو ڈرامے نے پاکستانی معاشرے کے مختلف پرتوں کو جس شدت اور سچائی سے پیش کیا، وہ کسی اور فنی اظہار میں ممکن نہ تھا۔ “وارث” جیسا ڈراما جاگیرداری نظام، طبقاتی تقسیم اور طاقت کی سیاست کا آئینہ ہے؛ “دھند” یا “آنگن ٹیڑھا” جیسے ڈرامے فوجی آمریت، دانشورانہ بحران، اور سماجی منافقت پر کھلی تنقید کرتے ہیں؛ جب کہ “تنہائیاں”، “ان کہی”، “دھوپ کنارے”، “آخری چٹان”، اور “تعبیر” جیسے ڈرامے شہری زندگی، محبت، خاندانی رشتے، خواتین کے مسائل اور نوجوان نسل کے جذبات کو گہری ہمدردی اور فنی مہارت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان ڈراموں کا اسلوب نہ صرف نثر میں اعلیٰ معیار کا حامل ہے بلکہ مکالمات کی سطح پر بھی اردو زبان کی صحت اور ادبی شائستگی کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
تنقیدی زاویے سے دیکھا جائے تو ٹی وی ڈرامے نے اردو افسانے اور ناول کی بعض فنی تکنیکوں کو نہایت کامیابی سے بصری پیرایہ دیا۔ کرداروں کی تشکیل، مکالمہ نگاری، فلیش بیک، علامتوں اور تمثیلات کا استعمال، اور واقعات کے انکشاف کا طریقہ ایسے انداز میں اختیار کیا گیا کہ وہ بیک وقت ادب، سینما اور تھیٹر تینوں کی فنی خوبیوں کا مجموعہ بن گئے۔ ٹی وی ڈرامے نے زبان کے اسلوب کو بھی نئے سانچے میں ڈھالا۔ اس سے پہلے اردو زبان زیادہ تر مکتبی یا کتابی لہجے میں لکھی جاتی تھی، مگر ٹی وی ڈرامے نے بول چال کی زبان، عوامی محاورے، اور مقامی تلفظات کو فصاحت کے ساتھ اردو بیانیے میں شامل کیا۔ اس سے اردو زبان کو نہ صرف وسعت ملی بلکہ وہ عوامی سطح پر ایک زندہ اور جاندار زبان بن کر ابھری۔
اردو ڈرامے کی صنف میں خواتین کے کردار کا تجزیہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حسینہ معین نے خواتین کو صرف مظلوم کردار کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ انہیں ایک باوقار، خوداعتماد، جذباتی طور پر حساس مگر عملی طور پر باشعور انسان کے طور پر دکھایا۔ “ان کہی” کی سنبل، “تنہائیاں” کی زینیا اور ثنا، “دھوپ کنارے” کی ڈاکٹر زویا، اور “پرچھائیاں” کی کردار نگاری نسوانی شعور، جذبات کی پیچیدگی، اور نسائیت کی مثبت تصویر کو اجاگر کرتی ہے۔ بعد کے ڈراموں میں نسائی بیانیہ قدرے یک رخا ہو گیا، مگر ابتدائی ڈراما نگاری میں توازن اور گہرائی موجود رہی۔
تاہم، ایک تنقیدی نقطۂ نظر سے اگر ہم ٹیلی ویژن کے اردو ڈراموں کا تجزیہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ 1990ء کے بعد جب ٹی وی پر نجی چینلز کی یلغار شروع ہوئی تو ڈرامے کا معیار بتدریج زوال پذیر ہونے لگا۔ مارکیٹنگ، اشتہارات، ریٹنگ اور کمرشل مفادات نے اس صنف کو محض تفریح اور جذباتی ابال کے آلے میں تبدیل کر دیا۔ جہاں ایک وقت میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ جیسے فکری ادیب ڈرامے لکھتے تھے، وہیں بعد کے عشروں میں ڈراما نگاری اکثر سطحی موضوعات، غیر حقیقی پلاٹوں، اور مصنوعی جذبات نگاری تک محدود ہو گئی۔ موجودہ ڈراموں میں زبان کی سطحیت، کرداروں کی سطحی کشمکش، اور اخلاقی ابہام ایسے مسائل ہیں جن پر سنجیدہ تنقید کی ضرورت ہے۔
اس کے باوجود، تحقیقی طور پر اردو ٹی وی ڈراما اب بھی ایک وسیع مطالعہ کا متقاضی ہے۔ یہ صنف نہ صرف ادبیات کے طالب علموں کے لیے اہم ہے بلکہ میڈیا اسٹڈیز، سوشیالوجی، اور کلچرل اسٹڈیز جیسے میدانوں کے لیے بھی ایک قیمتی وسیلہ ہے۔ ٹی وی ڈرامے نے اردو زبان کے پھیلاؤ میں جس طرح کردار ادا کیا، وہ کسی اور ادبی ذریعہ سے ممکن نہ تھا۔ اس نے متوسط طبقے کو اظہار کی ایک طاقتور شکل دی، معاشرتی مسائل کو ناظرین کے سامنے رکھا، اور انسان کی داخلی کشمکش کو تصویری پیرایے میں پیش کر کے ایک نئی فکری بیداری پیدا کی۔
خلاصہ یہ کہ اردو کا ٹیلی ویژن ڈراما ادب، فن، اور سماج کے امتزاج سے وجود میں آنے والی وہ زندہ صنف ہے جو آج بھی اگرچہ زوال کا شکار ہے، مگر اس کے ماضی کی عظمت، ادبی معیار، فکری بلندی اور سماجی اثرات ایسے ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔ اردو ڈراما محض ایک بصری مظہر نہیں بلکہ ہماری اجتماعی یادداشت، تہذیبی روایت، اور فکری ارتقا کا آئینہ ہے۔ اس کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ہمیں نہ صرف ادب کی نئی جہات سے روشناس کراتا ہے بلکہ ہمیں اس بات پر بھی مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے عہد کے تخلیقی بحران کو سمجھیں اور اسے نئی بصیرت اور فکری معیار سے مزین کریں۔