کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

حضرت مولانا احمد علیؒ کی زندگی اور آپ کی دینی اور علمی خدمات

حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ برصغیر کے اُن جلیل القدر علما میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف علمِ حدیث کے احیا اور تدریس میں گراں قدر خدمات انجام دیں بلکہ دینی تعلیمات کو عوام الناس تک پہنچانے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ اُن کی علمی و روحانی شخصیت نے انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلم معاشرے میں جو اثرات مرتب کیے، وہ آج بھی قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کی زندگی علم، اخلاص، سادگی اور تقویٰ سے عبارت تھی، اور انہوں نے اپنا پورا وجود اسلامی علوم کی تدریس، تصنیف و تالیف، اور تبلیغِ دین کے لیے وقف کر دیا۔ حضرت مولانا احمد علیؒ کا تعلق سہارنپور (یوپی) سے تھا، جہاں 1810ء کے قریب ایک علمی گھرانے میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی اور کم عمری ہی میں قرآن، فقہ، صرف و نحو اور دیگر علوم میں مہارت حاصل کر لی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی کا سفر کیا جہاں آپ نے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے علمی خانوادے سے وابستہ بزرگوں، بالخصوص شاہ اسحاق دہلویؒ جیسے بلند پایہ محدث سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ شاہ اسحاقؒ نے آپ کو صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، ترمذی اور دیگر کتبِ حدیث نہایت گہرائی و گیرائی کے ساتھ پڑھائیں۔ یہی نسبت بعد میں حضرت احمد علی سہارنپوریؒ کو برصغیر میں علمِ حدیث کا وہ مقام عطا کرتی ہے جو صرف چند خوش نصیب علما کو حاصل ہوا۔

مولانا احمد علیؒ کی دینی خدمات میں ایک بڑا کارنامہ دارالعلوم دیوبند کے قیام میں ان کی شرکت اور معاونت ہے۔ اگرچہ عمومی طور پر دارالعلوم کے بانیان میں مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے اسماء کو مرکزی حیثیت دی جاتی ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ حضرت احمد علی سہارنپوریؒ نہ صرف اس ادارے کے پہلے مدرسین میں شامل تھے بلکہ انہوں نے اپنی علمی اور روحانی شخصیت سے اس ادارے کی بنیادوں کو استحکام بخشا۔ وہ دارالعلوم دیوبند میں صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر اہم کتبِ حدیث پڑھاتے رہے، اور اُن کے ہزاروں شاگرد پورے برصغیر میں علم کا پرچم بلند کرتے رہے۔ ان کی تدریس محض رسمی نہیں تھی، بلکہ وہ روایت اور درایت کا حسین امتزاج تھی۔ طلبہ ان کے درس میں صرف حدیث کے الفاظ یا روایتیں یاد نہیں کرتے تھے بلکہ حدیث کے معانی، فقہی نکات، اصولی جہات، اور عملی تطبیق کے اصول سیکھتے تھے۔

حضرت مولانا احمد علیؒ کی سب سے اہم خدمات میں سے ایک ان کی تصنیفی اور طباعتی کاوشیں بھی ہیں۔ ان کا مرتب کردہ نسخۂ صحیح بخاری لاہور کے مطبع احمدی سے شائع ہوا، جو اپنی صحت، تحقیق، حواشی، اور حسنِ ترتیب کے اعتبار سے اُس وقت کے لیے ایک غیرمعمولی کارنامہ تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب مطابع میں کتابوں کی طباعت عموماً غیرمعیاری ہوتی تھی اور محقق نسخے دستیاب نہیں ہوتے تھے۔ مولانا احمد علیؒ نے بخاری شریف کے متعدد قلمی نسخوں کا تقابل کیا، کلمات کی درستی کی، مشکل الفاظ کی تشریح فراہم کی، اور روایتوں کے متون کی تحقیق کر کے ایک ایسا نسخہ شائع کیا جو آج بھی قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے صحیح مسلم، سنن نسائی اور دیگر کتبِ حدیث کی اشاعت میں بھی عملی کردار ادا کیا، اور یوں برصغیر میں حدیث کی تدریسی روایت کو علمی بنیادوں پر استوار کیا۔

ان کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو ان کا زہد و تقویٰ، اخلاص اور سادگی ہے۔ وہ نہایت سادہ لباس پہنتے، کم گو ہوتے، اور دنیاوی لذتوں سے مکمل طور پر کنارہ کش رہتے تھے۔ ان کا کھانا، رہائش، نشست و برخاست سب میں سادگی اور درویشی نمایاں تھی۔ وہ تبلیغِ دین میں بھی مصروف رہتے اور علم کو محض مدرسے یا مسجد تک محدود نہ رکھتے بلکہ عوام میں علم و اخلاق کی روشنی پھیلانے کو بھی اپنا دینی فریضہ سمجھتے۔ ان کی مجلس میں آنے والے صرف علم نہیں لیتے بلکہ اخلاق، اخلاص اور روحانیت کا بھی فیض پاتے۔ ان کے مزاج میں سختی نہ تھی، وہ نرمی، شفقت اور تواضع کے پیکر تھے۔ شاگردوں سے محبت کرتے، ان کی اصلاح نرمی سے کرتے، اور ان کی تربیت میں صوفیانہ طرزِ عمل اختیار کرتے۔

علمی و دینی خدمات کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا احمد علیؒ نے کئی مدارس کی علمی سرپرستی بھی کی۔ اُن کا اثر پورے یوپی، دہلی، پنجاب اور بنگال تک محسوس کیا جاتا تھا۔ ان کے شاگردوں میں ایسے علما شامل ہیں جنہوں نے بعد میں برصغیر کے دینی و تعلیمی منظرنامے کو تبدیل کیا۔ مثلاً مولانا یعقوب نانوتویؒ، مولانا قاسم نانوتویؒ اور دیگر بزرگ انہی کے فیض یافتہ تھے۔ مولانا احمد علیؒ نے علم کی جو نہریں جاری کیں، وہ دیوبند، سہارنپور، نانوتہ، مرادآباد، الہ آباد اور لاہور تک پھیل گئیں، اور ان کے اثرات آج بھی زندہ ہیں۔

ان کی زندگی ایک ایسی علمی و دینی تحریک کا مظہر تھی جو امت مسلمہ کے احیاء، فکری آزادی، علم کی نشر و اشاعت، اور سنتِ نبوی کی پیروی پر قائم تھی۔ وہ اپنے خطبات، مکتوبات، دروس اور تعلیمات میں امت کو بیداری، اتحاد اور علمی جفاکشی کا پیغام دیتے۔ انہوں نے مغربی تہذیب کی چمک دمک کے مقابلے میں اسلامی تہذیب، سیرت، قرآن و سنت اور علومِ دینیہ کے تحفظ کو ہی اصل کامیابی کا راستہ قرار دیا۔ ان کی زبان میں سادگی، بیان میں دل نشینی اور پیغام میں اخلاص کا جو اثر ہوتا تھا، وہ دلوں کو چھو لیتا تھا۔

1880ء کے قریب حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ نے اس دارِ فانی سے رخصت لی۔ ان کی وفات صرف ایک عالمِ دین کی موت نہ تھی، بلکہ برصغیر نے ایک ایسی روشنی کو کھو دیا جس کی کرنیں علم و دین کی صورت میں کئی نسلوں تک پہنچتی رہیں۔ ان کا چھوڑا ہوا علمی سرمایہ، ان کے شاگردوں کی خدمات، ان کے طباعت شدہ نسخے، اور ان کی دینی جدوجہد آج بھی اُن کی عظمت کے شاہد ہیں۔ برصغیر میں جس حدیثی روایت، درسی نظام، اور علمی مزاج کو فروغ ملا، اس میں حضرت مولانا احمد علیؒ کا کردار نہایت نمایاں ہے۔

ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر اخلاص، علم اور استقامت کو اپنا لیا جائے تو ایک فرد بھی قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک عظیم محدث، مفسر، مدرس اور مصنف تھے بلکہ ایک کامل انسان، مربی اور مصلح بھی تھے۔ ان کی علمی خدمات پر آج بھی تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں اور ان کا ذکر علما کی زبان پر دعاؤں، تعریفوں اور اعترافات کے ساتھ آتا ہے۔ برصغیر کے دینی مدارس، بالخصوص دیوبند کا علمی نظام، درسی کتابیں، اور دینی تشخص درحقیقت اُن بزرگوں کی محنت کا ثمر ہے جن میں حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ کا نام نمایاں ترین ہے۔ ان کی خدمات کو تاریخِ اسلام اور تاریخِ برصغیر کے علمی و دینی سرمائے میں ہمیشہ سنہرے الفاظ سے یاد کیا جائے گا۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں