کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

جديد اردو شا عری اور ہيت کے تجربے

جدید اردو شاعری اور ہیئت کے تجربے بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں سے اردو ادب میں ایک نئی شعری آگہی، جمالیاتی بیداری، اور فکری تنوع کے نمائندہ ہیں۔ اردو شاعری جو طویل عرصے تک روایتی ہئیتوں جیسے غزل، قصیدہ، مرثیہ، اور رباعی تک محدود رہی، بیسویں صدی میں مغربی شعریات، اندرونی سماجی تغیرات، اور تہذیبی تبدیلیوں کے زیر اثر ایک نئے اسلوب اور ہیئتی تجربے سے روشناس ہوئی۔ اس تبدیلی کی بنیاد ترقی پسند تحریک، حلقہ اربابِ ذوق، اور ما بعد الطبیعاتی رجحانات نے رکھی۔ ان تحریکوں نے شاعر کو اس بات کا احساس دلایا کہ موجودہ دور کے نئے مسائل، نئی اقدار، اور نئی فکری جہتیں پرانی ہئیتوں میں مکمل طور پر سمونا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے ایک نئے اظہار، نئی زبان، اور نئی ساخت کی ضرورت تھی، جس کے لیے شعرا نے ہیئت میں تجربہ کرنا شروع کیا۔ یہی تجربے رفتہ رفتہ جدید اردو شاعری کی شناخت بن گئے۔

ہیئتی تجربے کی شروعات آزاد نظم کے ذریعے ہوئی، جو پابند شاعری کی روایتی قید سے بغاوت تھی۔ آزاد نظم کی فنی تشکیل میں ن۔م۔ راشد اور میرaji کا نام نمایاں ہے۔ ن۔م۔ راشد نے علامتی و اشاریاتی انداز میں خارجی اور داخلی کائنات کو اسلوبیاتی سطح پر نئی ہیئت میں ڈھالا۔ ان کی نظم “زندگی سے ڈرتے ہو” یا “حسن کوزہ گر” صرف مواد میں نہیں، بلکہ ہیئت میں بھی جدید تھی، جہاں وزن، قافیہ، ردیف کی جگہ آہنگ، امیجری اور صوتی وحدت کو اہمیت حاصل ہوئی۔ اسی طرح میراجی نے نظم کو ایک نفسیاتی اور علامتی بیانیہ میں بدل دیا۔ ان کے ہاں نظم محض ایک ہئیتی تجربہ نہیں بلکہ ایک داخلی سفر، جنسی کشمکش، اور انسانی لاشعور کی شاعری بن گئی۔ ان کا طویل نظم “تین تصویریں” اس بات کا ثبوت ہے کہ ہیئت شاعر کے تجربے سے ہم آہنگ ہو کر ہی حسن پیدا کرتی ہے۔

بعد ازاں نثری نظم ایک اور نمایاں ہیئتی تجربہ بنی جس میں شعری تاثر کو نثری اسلوب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔ نثری نظم کو بعض ناقدین نے نظمیت سے عاری اور بعض نے اظہار کی مکمل آزادی کا مظہر قرار دیا، لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ ہیئتی تجربہ اردو شاعری میں معنوی پھیلاؤ، ساختی وسعت، اور بیانیہ کی پیچیدگی لایا۔ شمس الرحمن فاروقی، افتخار جلیل، اور انور سن رائے جیسے شعرا نے نثری نظم کو جدید اردو شاعری کا ایک نیا باب بنایا۔ اس صنف میں قاری کو قافیہ و ردیف کے سحر سے آزاد ہو کر خیال، تجربے اور منظر کے ساتھ براہِ راست ہم آہنگی حاصل ہوتی ہے۔

جدید اردو شاعری میں ہیئت کے تجربات صرف نئی نظموں تک محدود نہیں بلکہ غزل جیسی روایتی صنف میں بھی نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ جدید غزل کے شعرا جیسے جون ایلیا، احمد مشتاق، زاہد ڈار، اور افتخار عارف نے غزل کو صرف رومانی احساسات کا ترجمان نہیں رہنے دیا بلکہ اس میں عصری شعور، وجودی سوالات، تاریخی بصیرت، اور فکری الجھنیں شامل کیں۔ اگرچہ ہیئت یعنی بحر، وزن اور قافیے کی حد بندی بدستور قائم رہی، لیکن مضامین اور اندازِ بیان میں جو تازگی آئی، وہ غزل کی ہیئت کے ساتھ ایک نیا تجربہ ہی تو تھا۔ جون ایلیا کی غزلوں میں داخلی شکستگی، جذباتی تہہ داری، اور لسانی تجربہ ایک نئے لہجے کا پیش خیمہ بن گئے۔

حلقہ اربابِ ذوق اور ما بعد جدید رجحانات نے بھی ہیئتی تجربوں کو تقویت بخشی۔ حلقے کے شعرا نے “نئی نظم” کو جدید نظم سے بھی مختلف انداز میں اپنایا، جہاں تصویر کشی، استعارہ، اور علامتوں کو مربوط کرتے ہوئے نظم کو ما بعد الطبیعاتی اور ما بعد نوآبادیاتی فکر سے جوڑا گیا۔ ان نظموں میں ہیئت ایک جامد پیکر نہیں بلکہ خیالات کے بہاؤ کی صورت میں موجود ہوتی ہے، جو بسا اوقات غیر متوقع جملوں، اجنبی استعارات، اور صوتی تضاد کے ساتھ قاری کو چونکا دیتی ہے۔ یوں ایک نئی لسانی جمالیات وجود میں آئی جو اردو شاعری کو داخلی اور خارجی سطح پر بیک وقت بدلنے کی صلاحیت دیتی ہے۔

ہیئت کے تجربے کی ایک اور شکل صوتیاتی شاعری (Sound Poetry) اور تصویری شاعری (Visual Poetry) کی صورت میں سامنے آئی، جس میں بعض شعرا نے الفاظ کی ترتیب، حروف کی ساخت، اور لسانی وحدت کو بصری اشکال میں ڈھالا تاکہ قاری صرف مفہوم ہی نہیں بلکہ منظر اور صورت سے بھی لطف اٹھا سکے۔ اگرچہ یہ تجربے زیادہ مقبول نہ ہو سکے، لیکن اردو شاعری کی ہیئتی جستجو کی گہرائی اور جرأت کا ثبوت ضرور ہیں۔

ان تمام تجربوں کے باوجود بعض نقادوں نے جدید ہیئت کو اردو شاعری کی کلاسیکی روایت سے انحراف قرار دیا، لیکن درحقیقت یہ انحراف نہیں بلکہ ارتقاء ہے۔ کلاسیکی شعرا نے بھی اپنے زمانے کے فکری و تہذیبی اثرات کے تحت ہئیت کو استعمال کیا، اور آج کا شاعر بھی اپنے عہد کے تناظر میں نئی ہیئتوں، اسالیب اور فکری دھاروں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جدید اردو شاعری میں ہیئت کا تجربہ ایک جمالیاتی اور فکری وسعت کی طرف قدم ہے، جس نے اردو زبان کو نہ صرف روایتی جمود سے آزاد کیا بلکہ عالمی ادب سے بھی ہم آہنگ کیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ جدید اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے محض صنفی تبدیلی نہیں بلکہ ایک فکری، جمالیاتی اور تہذیبی بیداری کا مظہر ہیں۔ آزاد نظم، نثری نظم، نئی غزل، صوتی و بصری شاعری، اور نظموں میں ساختیاتی آزادی وہ تجربات ہیں جنہوں نے اردو شاعری کو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک تازہ زبان، نیا اسلوب، اور منفرد فکری رنگ عطا کیا۔ یہ تجربے اردو شاعری کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہیں، جو اب ایک روایتی روایت نہیں بلکہ ایک زندہ اور ارتقائی عمل ہے، جو آنے والے وقت میں مزید نئی ہیئتوں اور اسالیب کو جنم دیتا رہے گا۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں