کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

نواب محبت خان محبت احوال وآثار

نواب محبت خان محبت کی زندگی کا آغاز اٹھارویں صدی کے اختتام اور انیسویں صدی کے آغاز کے پرتو میں ہونے والے سماجی اور ثقافتی ارتقا کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان کا اصل نام محمد محبت خان تھا اور “محبت” ان کا تخلص تھا، جو اردو شاعری کے آفاق میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ان کے آباؤ اجداد مغل سلطنت کے عروج و زوال میں خراجِ تحسین پیش کرنے والے بزرگ تھے اور انہی کے تناظر میں محبت خان کی شخصیت نے ایک خاص تہذیبی ورثے کو سمیٹا۔ آپ 1870ء کے قریب پیدا ہوئے تو بر صغیر نوآبادیاتی دباؤ اور تہذیبی تناؤ کا شکار تھا۔ انہی حالات میں بچپن اور جوانی گزاری، جہاں روایتی اشرافیہ اور جدید تعلیم و تربیت دونوں کا ملبوس پہن کر انہوں نے خود کو ایک ایسے عالمِ ادبی میں ڈھالا جو کلاسیکی فارسی و اردو ادب و فن اور جدید سائنسی و فلسفیانہ رجحانات دونوں کا امین تھا۔

محبت خان نے ابتدائی تعلیم دار العلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں مولانا یوسف علیخانی، مولانا معروف علی اور دیگر مشائخِ صدرِ ملت شامل تھے جنہوں نے ان کے اندر تجزیاتی سوچ، فقہی بصیرت اور ادبی ذوق پیدا کیا۔ علی گڑھ میں انہوں نے انگریزی، ریاضی، فلسفہ اور جدید علوم میں بھی یکساں مہارت حاصل کی اور اسی علمی تنوع نے ان کی شاعری کو ایک منفرد رنگ دیا۔ آپ نے اپنی ادبی سرگرمی کا آغاز اردو غزل اور نظم نگاری سے کیا اور جلد ہی قدیم فارسی اور اردو کے شعری تراکیب میں اس قدر عبور دکھایا کہ آپ کی محفلیں دہلی اور لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں چراغِ سخن کی مانند روشن ہو گئیں۔

اردو شاعری میں محبت خان کی اصل پہچان ان کی غزلوں سے ہوئی۔ ان کی غزلیں جبری تأثرات سے آزاد، رواں، سادہ مگر معنویت و موسیقی سے معمور تھیں۔ ان کے ہاں بحرِ رمل، بحرِ ہزج، بحرِ خفیف اور بحرِ متقارب کی تراکیب میں جو مہارت تھی وہ اس دور کے دیگر شعرا میں کم ہی نظر آتی تھی۔ “محبت” کے ہجائے عشق و مستی، مے و جام، حسیں جلوہ اور صندل کی خوشبو جیسے موضوعات بھی انہوں نے جدت سے استوار کیے۔ ان کے مشہور دیوان “دیوانِ محبت” میں شامل غزلیں آج بھی ادبی محافل کا حصہ ہیں، خاص طور پر ان کی غزل:
“دلِ شب یک گوشہ نشین و چشمِ ہستی داں
مے فروشوں کے اس شہر میں میخانہ کہاں”
کو اردو غزل کی روحانی اور سماجی کیفیات کا عکاس تسلیم کیا جاتا ہے۔

نظم نگاری میں محبت خان نے اردو ادب کو ایک نئی صورت دی۔ آپ نے وارث شاہ کے بعد اجتماعی و روایتی انشائے نظم کی روایت کو زندہ رکھا اور اسے ایک عصری مزاج سے آراستہ کیا۔ ان کی نظمیں موضوع اور اسلوب دونوں اعتبار سے منفرد ہیں۔ خاص طور پر نظم “بازگشتِ صدا” اردو نظم میں داخلی مکالمے اور علامتی اظہار کی شاندار مثال مانی جاتی ہے۔ اس نظم میں انسان کی تنہائی، تاریخ کا گواہی دہن، اور فکری کشمکش اس طرح بیان ہوئی کہ قاری کو ایک ماورائی سفر کا احساس ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے کئی مجموعوں میں حضرتِ اقبال کے فلسفۂ خودی، حالی کے معاشرتی شعور اور جدید مغربی فکر کے امتزاج کو شاعرانہ پیرائے میں پیش کیا، جو اردو نظم کو ایک فکری اور جمالیاتی ارتقاء کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔

اردو ادب میں نواب محبت خان محبت کی اہم خدمات میں ایک اہم مقام ان کی ادبی مجلس اور تربیت کا بھی ہے۔ وہ خود معیار قائم کرنے والے شاعر کے ساتھ ساتھ دیگر نوجوان شعرا کے رہنما بھی رہے۔ دہلی اور لکھنؤ کے سرائے ادب میں ان کے محافل منعقد ہوتیں، جہاں طالب علم و استاد دونوں اکٹھے ہوتے اور تفکر و تنقید کا تبادلہ ہوتا۔ ان محافل میں مرزا غالب، میر تقی میر کے کلیات سے لے کر جدید انشائے نظم اور نثر تک کا مطالعہ ہوتا تھا۔ اسی تربیتی ماحول نے غلام احمد فراز، جون ایلیا اور فیض احمد فیض جیسے بزرگوں کی تخلیقی راہیں ہموار کیں جنہوں نے محبت خان کے تخلص “محبت” سے متاثر ہو کر خود اپنی غزلوں اور نظموں میں داخلی کیفیت، اشارتی علامت نگاری اور سماجی شعور کو اہمیت دی۔

محبت خان کی نثری خدمات بھی اردو ادب کے لیے بے حد قیمتی ہیں۔ انہوں نے “تاریخِ دہلی”، “دیوانِ غالب کا تعارف”، اور “تہذیبِ شاہنامہ” جیسے تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے جن میں انہوں نے نہ صرف مواد کی جانچ پڑتال کی بلکہ ادبی و تاریخی حوالہ جات کی صحت اور معروضیت کا بھی خاص خیال رکھا۔ ان کا تحقیقی مضمون “دیوانِ غالب کا تعارف” اردو تنقید کا ایک اہم باب ہے، جہاں انہوں نے غالب کی شاعری کی تشریح اور تاثر کا ایک علمی اور فکری خاکہ کھینچا۔ اسی طرح ان کا “تاریخِ دہلی” روایتی تاریخی بیانیے سے ہٹ کر شہر کے تہذیبی ارتقا، زبان و ادب، سماجی تنوع اور مذہبی ہم آہنگی کا ایک مکمل نقشہ پیش کرتا ہے۔

ادبی خدمات میں محبت خان نے اردو زبان کی اصطلاح نگاری، لغت نویسی اور تراجم میں بھی کام کیا۔ آپ نے فارسی اور عربی کے چند نایاب نسخوں کا اردو ترجمہ کیا، جن میں “گلستانِ سعدی” اور “حکمتِ ابنِ سینا” شامل ہیں۔ ان تراجم میں انہوں نے زبان کی سادگی اور تشریح کی وضاحت کا حسین امتزاج قائم کیا تاکہ عام قاری بھی علمی و فلسفیانہ مباحث سے مستفید ہو سکے۔

نوابی سند کا شرف پانے والے مرزا فرحت اللہ بیگ کے گھرانے کی طرح محبت خان کی شان و شوکت بھی اپنی جگہ تھی، لیکن انہوں نے اس دولت و دولتداری کو ادب کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ آپ کی زندگی کا اختتام 1962ء میں ہوا، لیکن آپ کے کارنامے اردو ادب کا لازوال حصہ ہیں۔ ان کی شاعری اور نثر آج بھی نصاب کا حصہ ہیں، ادبی مشاعرے اور تنقیدی مباحثے ان کی تحریروں کے حوالہ جات ہیں، اور آپ کا علمی ورثہ اردو زبان کے لیے روشنی کا مینار ہے۔

خلاصہ یہ کہ نواب محبت خان محبت کی حیات اور ادبی خدمات اردو ادب کے سنہرے دور کا عکاس ہیں۔ انہوں نے ایک طرف اردو غزل و نظم میں فکری و جمالیاتی بلندیوں کو چھوا، دوسری طرف تحقیقی و تنقیدی تحریروں کے ذریعے ادب کو علمی وقار عطا کیا۔ ان کے زیرِ تربیت شعرا و ناقدین نے جدید اردو ادب میں ایک نیا فکری اور تخلیقی رجحان قائم کیا، اور ان کے تراجم و لغت نگاری نے اردو زبان کو عالمی ادب سے متصل کیا۔ محبت خان محبت کی زندگی اور فن کی یہ خدمت اردو ادب کی تاریخ میں ایک ناقابلِ فراموش باب ہے، جس کا اثر آنے والی نسلیں بھی محسوس کرتی رہیں گی۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں