کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو افسانے کا نفسیاتی مطالعہ

اردو افسانے کی تاریخ میں نفسیاتی مطالعے کی اہمیت اس حقیقت سے آشکار ہوتی ہے کہ افسانے کے کردار نہ صرف بیرونی واقعات کے تابع ہوتے ہیں بلکہ ان کے افعال اور ردِعمل ان کی نفسیاتی ساخت، جذباتی کیفیت اور ذہنی عمل کا بھی عکاس ہوتے ہیں۔ اردو افسانے کے ابتدائی دور کے نگاروں جیسے رحیم، قرۃ العین حیدر اور سعادت حسن منٹو نے بظاہر سادہ واقعات کو اپنے کرداروں کے اندرونی تضادات، نفسیاتی دباؤ اور جذباتی الجھنوں کے ذریعے ایک پیچیدہ انسانی تجربے کا نقشہ بناتے ہوئے ہمیں دکھایا کہ افسانوی کردار بھی ایک زندہ شخصیت کی طرح اپنے ماحول، ماضی اور داخلی وجدان کے ساتھ کیونکر موازنہ کرتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے اردو افسانے کا نفسیاتی مطالعہ اُسے صرف ادبی متن سے تجاوز کر کے ایک انسانی نفسیات کی تحقیق کا بھی ذریعہ بنا دیتا ہے۔

ابتدائی افسانوی نگاروں نے کردار نگاری میں عمومی نوعیت کی طرف توجہ دی مگر ان کے کرداروں کے نفسیاتی پہلو بھی خودبخود عیاں ہو گئے۔ مثال کے طور پر منٹو کے افسانوں میں انسانی کشمکش، زخم خوردہ نفسیات اور الگ تھلگ احساسات کی جو شدت ملتی ہے، وہ اس کی نفسیاتی جہت کو نمایاں کرتی ہے۔ افسانہ “ٹھنڈا گوشت” میں جہانگیر کی ذہنی کیفیت اور احساسِ جرم کی گھٹن اس طرح بیان کی گئی ہے کہ قاری اس کے رویے میں اس اضطراب کو محسوس کر لیتا ہے۔ نفسیاتی تحقیق کے تناظر میں اس افسانے کا مطالعہ ہمیں دکھاتا ہے کہ کس طرح جرم اور خوف کے جذبات کردار کے مجموعی شعور اور رویوں کو متاثر کرتے ہیں، اور اسے ایک نفسیاتی کیس اسٹڈی کا درجہ بھی مل سکتا ہے۔

اگلے مرحلے پر ادیبین نے کرداروں کا ماضی اور پیدائشی پسِ منظر بھی نفسیاتی مطالعے کا حصہ بنایا۔ قیس رخ نے اپنے افسانوں میں بچوں کی نشوونما، گھریلو کشمکش اور سماجی دباؤ کے اثرات کو اس انداز سے بیان کیا کہ ان کے کردار پیچیدہ نفسیاتی نقوش کے حامل ہو گئے۔ ان کی تحریروں میں جو “اندرونی آواز” اور خود سے مکالمہ دکھائی دیتا ہے، وہ جدید نفسیاتی تحقیق کے مطالعے کا بھی موضوع بن سکتا ہے۔ کردار کا وہ اندرونی مکالمہ جو خود شناسی، احساسِ کمتری یا خود اعتمادی کے بیچ جھولتا ہے، اردو افسانے کو ایک جدید نفسیاتی متن بناتا ہے۔

اردو افسانے میں عورت کی نفسیات پر بھی کافی کام ہوا ہے۔ عصمت چغتائی نے افسانہ “لحاف” میں عورت کی جنسی جبلت، سماجی پابندیوں اور روحانی تنہائی کو نفسیاتی زاویے سے پیش کیا۔ اس افسانے میں بی بی محترمہ کی نظر کی حد سے باہر کے احساس جنسی خواہش اور معاشرتی منظر کے بیچ کشمکش کی نفسیاتی پرتیں اس قدر جاندار ہیں کہ موجودہ دور کے فیمینزم اور نفسیاتی ادبیات کے لیے یہ ایک اہم ماخذ بن سکتا ہے۔ انیس بلدئی کے افسانے جو عورت کی داخلی دنیا، یادوں کے سائے اور رشتوں کی پیچیدگیاں بیان کرتے ہیں، وہ نفسیاتی مطالعے میں کردار کے ذہنی عمل، یادداشت اور احساسات کے انتظام کا ایک ادبی تجربہ پیش کرتے ہیں۔

نفسیاتی نقطۂ نظر سے افسانے کے مکالمات اور غیر بولی زبان (nonverbal cues) کا مطالعہ بھی اہم ہے۔ اردو افسانوں میں مکالمات میں وقفے، خاموشی، آنکھوں کے تاثرات اور جسمانی حرکتیں کردار کے نفسیاتی تناؤ، جذباتی کیفیت اور مخمصے کو ظاہری اظہار دیتی ہیں۔ شمس شکیل کے افسانے “خون کے آنسو” میں کردار کی خاموشی اور ٹوٹے ہوئے دیوار کے آگے کھڑے ہونے کا منظر کردار کے شکست خوردہ ذہن اور امید کے ٹوٹنے کی نفسیاتی تصویر بن جاتا ہے۔ افسانوں میں غیر بولنے والی آوازیں اور خاموش مکالمات نفسیاتی مطالعے کا اہم حصہ ہیں کیونکہ یہ ہمیں کردار کی اندرونی کیفیت کا گہرا ادراک فراہم کرتے ہیں۔

نفسیاتی موڈیا میں ماحول اور منظر نگاری کا کردار بھی اہم ہے۔ اردو افسانوں میں متغیر موسم، خستہ حال دیواریں، اجڑے گھر اور سنسان راستے کرداروں کی نفسیاتی حالت کے عکاس بن کر سامنے آتے ہیں۔ منٹو کے “سوسائٹی” افسانے میں شہر کے باسیوں کی خودغرضی کو سنسان مناظر کے ذریعے دکھانا ماحول کے ذریعے نفسیاتی تناظر کی ایک مثال ہے۔ زمانہ اقبال کے “اداس نسلیں” میں ریتلے میدان اور سوکھے چشمے کا منظر معاشرتی و نفسیاتی بے حسی کو یکساں طور پر بیان کرتا ہے۔ اس طرح اردو افسانے میں ماحول نگاری کردار کے اندرونی عالم کا توسیعی عکس پیش کرتی ہے۔

جدید دور میں اردو افسانے نے نفسیاتی اضطراب کو مزید تہہ دار انداز میں پیش کیا۔ سلمان اسکور کے افسانوں میں جنسی ٹریما، خاندان کا دباؤ اور فرد کا شناختی بحران ایک نفسیاتی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے افسانے ایک طرح کے نفسیاتی کیس اسٹڈی ہیں، جہاں کردار اپنے ماضی کے سائے، یادوں کے شکنجے اور خود کے سوالات میں گِھر جاتے ہیں۔ ان کے کردار ڈیپریشن، اینزائٹی ڈس آرڈر اور شناختی الجھن کے عین مطابق نقوش رکھتے ہیں، جو اردو افسانے کو نفسیاتی مطالعہ کی ایک نیا جہت دیتے ہیں۔

نفسیاتی جائزے میں ترجمہ شدہ اردو افسانوں کی بھی اہمیت ہے۔ گوپی چند نارنگ جیسے نقادوں نے افسانوی تراجم میں کرداروں کی نفسیاتی گہرائی، ثقافتی سیاق اور لسانی حدود کے مابین فرق کو بیان کیا۔ اس تناظر میں بین الاقوامی نفسیاتی افسانوی روایت اور اردو افسانہ کا مقابلہ کرنا ایک تحقیقی موضوع ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر فرینکے کافکا کے تراجم میں تضادات اور اضطراب کو اردو افسانے کے کرداروں کے اضطراب کے ساتھ مطابقت دیتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

اردو افسانے میں نفسیاتی مطالعے کا ایک اہم پہلو “خود نوشت” اور “آپ بیتی” بھی ہیں، جہاں مصنف اپنے اندرونی عالم اور ذہنی مراحل کو بیان کرتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی “شہاب نامہ” اور رشید جہاں کی “ہفتے کے اختتام پر” جیسے خود نوشتوں میں مصنف کا اپنی زندگی کے نفسیاتی مرحلوں اور جذباتی تجربات کا بیان افسانوی تکنیک کا استعمال کرتا ہے، جسے بھی نفسیاتی مطالعے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ خود نوشت کا فکشنلی احساس اور دردمندی اردو ادب میں نفسیاتی مطالعے کو مزید وسعت دیتا ہے۔

اردو افسانے کا نفسیاتی مطالعہ صرف تشریح و تنقید پر مبنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ تجرباتی تحقیق، qualitative analysis اور even psychoanalytic criticism جیسے طریقوں کو شامل کر کے اس صنف کے اندرونی اسرار کو کھولا جا سکتا ہے۔ فی الوقت اردو نقادوں نےpsychoanalytic criticism پر محدود کام کیا ہے، لیکن مستقبل میں اردو افسانے کے کرداروں، unconscious motives اور symbolic imagery کا موضوعاتی و لسانی مطالعہ نفسیاتی علوم کے تعاون سے کرنا ایک تحقیقی انقلاب ثابت ہو سکتا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ اردو افسانے کا نفسیاتی مطالعہ ادب کو ایک مزید ہمہ جہت شکل دیتا ہے اور کردار نگاری، ماحول نگاری، مکالمات، خود نوشت اور بین الاقوامی تراجم کے ذریعے ہم نفسیاتی تشخص کا ایک جامع اور متحرک نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔ اردو افسانے نے اپنی جھلک میں انسانی نفسیات کے پیچیدہ تجربات، سماجی دباؤ، وجودی اضطراب اور تہذیبی کشمکش کو سما لیا ہے، اور ان مضامین پر تحقیقی توجہ اس صنف کی علمی قدروقیمت کو مزید بڑھا دے گی۔ اردو افسانے کا نفسیاتی مطالعہ ادب اور نفسیات کے سنگم پر ایک نیا علمی باب کھولنے کا باعث بنے گا، جو نہ صرف ادبیات بلکہ انسانی تجربے کی گہرائیوں کو سمجھنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں