پاکستان میں اردو ناول کی تاریخ ایک فکری، تہذیبی اور ادبی سفر کی کہانی ہے، جو 1947ء کے بعد وجود میں آنے والی نئی ریاست، اس کی نفسیات، سماجیات اور سیاسی تغیرات کی عکاسی کرتی ہے۔ اگرچہ اردو ناول کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل میں ہو چکا تھا اور پریم چند، نیاز فتح پوری، اور رشید احمد صدیقی جیسے ہندوستانی ناول نگار اردو ناول کی بنیاد رکھ چکے تھے، لیکن پاکستان میں اردو ناول نے ایک نئی شناخت کے ساتھ جنم لیا، جو صرف فن اور اسلوب کا معاملہ نہیں بلکہ ایک نئی ریاست، نئی اقدار، نئی شکست وریخت اور نئی امیدوں کا بیانیہ بھی تھا۔ پاکستان میں اردو ناول نگاری کا آغاز مہاجر مصنفین کی تحریروں سے ہوا جنہوں نے اپنے مشاہدات، ہجرت کے تجربات اور مابعد تقسیم کے معاشرتی بحرانوں کو ناول کی صورت میں پیش کیا۔ قرۃ العین حیدر کا “آگ کا دریا” اگرچہ تقسیم سے پہلے لکھا گیا مگر اس کے اثرات پاکستان اور ہندوستان دونوں میں محسوس کیے گئے، اور اس نے اردو ناول کی فکری و فنی سمت کا تعین کیا۔ پاکستان میں ابتدائی دور کے ناولوں میں ہجرت، شناخت، بےگھر پن، مذہب اور ریاستی نظریے جیسے موضوعات نمایاں تھے۔ اس دور میں نسیم حجازی نے تاریخی اسلامی ناول کو فروغ دیا جن میں ’’شاہین‘‘، ’’خاک و خون‘‘ اور ’’قافلہ حجاز‘‘ جیسے ناول عوامی سطح پر بہت مقبول ہوئے۔ ان ناولوں نے ایک خاص اسلامی تاریخی شعور کو اجاگر کیا، تاہم ادبی حلقوں میں ان کی فنی حیثیت پر بحث بھی جاری رہی۔
پاکستان میں اردو ناول کی اگلی نسل نے محض نظریاتی یا تاریخی فضا سے نکل کر معاشرتی تضادات، متوسط طبقے کی نفسیات، شہری زندگی کی پیچیدگیوں، اور طاقت کے جبر جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا۔ انیسویں صدی کے وسط میں عبداللہ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں‘‘ ایک فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوا، جس نے اردو ناول میں ایک فکری، علامتی اور جدید اسلوب کی بنیاد رکھی۔ یہ ناول نہ صرف پاکستان میں بلکہ برصغیر کے اردو ادب میں بھی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ اس میں تحریک آزادی، سماجی بیداری، اور نوآبادیاتی جبر کے درمیان پسے ہوئے کرداروں کا ایک وسیع منظرنامہ پیش کیا گیا۔ اسی طرح انتظار حسین نے ’’چاند گہن‘‘، ’’بستی‘‘ اور ’’آخری آدمی‘‘ جیسے ناولوں میں ہجرت، زوال اور تہذیبی یادداشت کو ایک علامتی اسلوب میں پیش کیا اور اردو ناول میں مابعد جدید رجحانات کا آغاز کیا۔ ان کے ہاں قصہ گوئی، داستانوی رنگ اور مذہبی و ثقافتی علامتوں کا امتزاج ایک خاص اسلوب کو جنم دیتا ہے جس نے اردو ناول کو عالمی سطح پر بھی متعارف کروایا۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستانی اردو ناول نگاری میں ترقی پسند تحریک کے اثرات بھی دکھائی دیے، جہاں ناول نگاروں نے طبقاتی جدوجہد، جاگیردارانہ نظام، عورت کی محکومی، اور مزدور طبقے کے استحصال جیسے موضوعات کو اجاگر کیا۔ شوکت صدیقی کا ناول ’’خدا کی بستی‘‘ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے، جو نہ صرف ایک عہد کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ ایک کثیر سطحی بیانیے کا حامل بھی ہے۔ اس ناول میں شہری زندگی، غربت، بدمعاشی، جنسی استحصال، اور طبقاتی کشمکش کی وہ جھلک دکھائی گئی جو اُس وقت کے پاکستان کی حقیقی تصویر تھی۔ شوکت صدیقی کا دوسرا اہم ناول ’’جاگ اُٹھا ہے سارا شہر‘‘ بھی سماج میں طاقت، سیاست اور مزاحمت کے بیانیے کو بیان کرتا ہے۔ اسی دور میں خدیجہ مستور، جمیلہ ہاشمی، اور بانو قدسیہ نے نسائی نقطہ نظر سے اردو ناول کو ایک نیا زاویہ دیا۔ ان کے ناولوں میں عورت کی داخلی دنیا، اس کی نفسیاتی کشمکش، سماجی جبر اور معاشرتی قدروں کی گرفت کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا گیا۔
پاکستانی اردو ناول نے رفتہ رفتہ روایتی پلاٹ اور بیانیے سے آگے بڑھ کر نئی تکنیکوں، زبان کے تجربات، اور موضوعات کی وسعت کو اختیار کیا۔ اس رجحان میں سمیرا احمد، عمیرہ احمد، اور محمد حنیف جیسے مصنفین کا کردار اہم ہے، جنہوں نے مختلف طرز، انداز اور قاری کے دائرے میں لکھنے کا تجربہ کیا۔ محمد حنیف کا ناول ’’A Case of Exploding Mangoes‘‘ جو اردو میں بھی شائع ہوا، طنز، سیاسی مزاح اور حقیقت نگاری کا ایک نیا امتزاج تھا، جو عالمی سطح پر پذیرائی کا باعث بنا۔ اسی طرح مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناولوں جیسے ’’راکھ‘‘ اور ’’بہاؤ‘‘ میں تاریخ، فلسفہ، اور تہذیبی جڑت کو ایک بیانیہ وحدت میں سمویا۔ تارڑ کے ناول نہ صرف اسلوبی سطح پر منفرد ہیں بلکہ انہوں نے اردو ناول کو عصری انسانی تجربے سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی۔
حالیہ برسوں میں اردو ناول میں جو رجحانات ابھرے ہیں ان میں خواجہ سراوں، مذہبی اقلیتوں، شہری تنہائی، ماحولیات، اور جنگی نفسیات جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں۔ نئے ناول نگار اپنے بیانیے میں محض کہانی نہیں بلکہ اس کے اطراف کی دنیا، اس کی فکری بنت، اور اس پر اثر انداز ہونے والے خارجی محرکات کو شامل کرتے ہیں۔ افسانہ اور ناول کے درمیان سرحدیں دھندلی ہو رہی ہیں اور طویل بیانیہ اب صرف روایتی ناول تک محدود نہیں رہا۔ اس بدلتے ہوئے تناظر میں اردو ناول نہ صرف پاکستانی سماج کی داخلی تصویر کشی کر رہا ہے بلکہ اسے عالمی ادبیات میں ایک باوقار جگہ بھی دلا رہا ہے۔
پاکستان میں اردو ناول کی روایت محض چند بڑے ناموں تک محدود نہیں بلکہ اس کے دامن میں درجنوں ایسے ناول نگار شامل ہیں جنہوں نے اپنے مخصوص انداز، موضوعات اور تہذیبی شعور سے اس صنف کو وسعت دی۔ یہ ناول کہیں سیاسی مزاحمت کی زبان بنتے ہیں، کہیں شخصی نفسیات کا تجزیہ پیش کرتے ہیں، کہیں نسائی شعور کو اجاگر کرتے ہیں، اور کہیں محض ایک فرد کی کہانی کو پورے معاشرے کا آئینہ بنا دیتے ہیں۔ پاکستانی اردو ناول نہ صرف ماضی کی یادداشت ہے بلکہ حال کی تنقید اور مستقبل کی پیش بینی بھی۔ یہی وہ پہلو ہیں جو اردو ناول کو محض ادب کی صنف نہیں بلکہ ایک فکری، سماجی، اور تہذیبی مظہر بناتے ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔