کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو میں اصطلاحات سازی کی کوششوں کا جائزہ

اردو زبان برصغیر کے تہذیبی، تاریخی، اور علمی تناظر میں ایک ایسی زندہ اور ترقی پذیر زبان کے طور پر سامنے آئی ہے، جس نے مختلف لسانی اثرات کو جذب کرتے ہوئے ایک جامع اسلوبِ اظہار پیدا کیا۔ اس زبان کی ترقی کے مختلف مراحل میں اصطلاحات سازی کا عمل خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ کسی بھی زبان کو علمی اور سائنسی میدان میں مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ جدید علوم و فنون کے اظہار کے لیے مناسب اصطلاحی نظام مہیا کر سکے۔ اردو زبان میں اصطلاحات سازی کی کوششیں اگرچہ کسی حد تک غیر منظم، متضاد اور بسا اوقات ادھوری رہی ہیں، لیکن مجموعی طور پر ان کوششوں نے ایک فکری، لسانی اور قومی شعور کو جنم دیا ہے جو اردو کو محض تہذیبی زبان سے بڑھا کر ایک علمی زبان کے طور پر دیکھنے کا داعی ہے۔ اردو میں اصطلاحات سازی کی ابتدا انیسویں صدی میں اس وقت ہوئی جب ہندوستان میں انگریزی استعمار کے زیر اثر جدید سائنسی، طبی، قانونی اور فنی علوم کی تدریس انگریزی زبان میں شروع ہوئی اور ان علوم کو مقامی زبانوں میں منتقل کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جانے لگی۔ سرسید احمد خان اور ان کی قائم کردہ سائنٹفک سوسائٹی اس عمل کی ابتدائی اور منظم کاوشوں میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ سرسید نے نہ صرف سائنسی مضامین کا اردو میں ترجمہ کروایا بلکہ انگریزی اصطلاحات کے لیے اردو متبادل بھی وضع کیے تاکہ عوام الناس ان علوم سے مانوس ہو سکیں۔ ان کا تصور یہ تھا کہ جب تک علم و تحقیق کو مقامی زبان میں دستیاب نہ کیا جائے، تب تک نہ تعلیمی بیداری ممکن ہے اور نہ ہی سماجی ترقی۔ سائنٹفک سوسائٹی کی مطبوعات میں استعمال ہونے والی اصطلاحات سادگی، وضاحت اور مقامی ذوق سے ہم آہنگی کی مثال تھیں۔

سرسید کی ان کوششوں کے بعد مولوی عبدالحق نے اصطلاحات سازی کے عمل کو ایک باقاعدہ ادارہ جاتی شکل دی۔ انہوں نے انجمن ترقی اردو کے پلیٹ فارم سے اردو کے لیے سائنسی، ادبی، فنی، اور عمرانی اصطلاحات کا ایک وسیع ذخیرہ تیار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اگر اردو میں ہر علمی شعبے کے لیے معیاری اصطلاحات موجود ہوں تو یہ زبان کسی بھی طرح سے انگریزی یا دیگر ترقی یافتہ زبانوں سے کم نہیں ہو گی۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ زبان کا فروغ اس وقت ہی ممکن ہے جب وہ علوم و فنون کے بیان کے قابل ہو اور اس کے پاس ایک مستقل اصطلاحاتی نظام موجود ہو۔ مولوی عبدالحق نے نہ صرف تراجم کے ذریعے اصطلاحات کو متعارف کرایا بلکہ نئی اصطلاحات کے قیام میں عربی، فارسی اور خود اردو کے داخلی لسانی وسائل کو بروئے کار لانے کی ترغیب دی۔ وہ سادہ، بامعنی اور مانوس اصطلاحات کے قائل تھے تاکہ عام قاری اور طالب علم ان سے مانوس ہو سکے۔

قیام پاکستان کے بعد اردو کو بطور قومی زبان اختیار کیے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی اصطلاحات سازی کو ایک سرکاری سطح پر باقاعدہ حیثیت حاصل ہوئی۔ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں کئی ادارے قائم کیے، جن میں مقتدرہ قومی زبان (اب ادارہ فروغ قومی زبان)، اردو سائنس بورڈ، اور قومی ٹرمینالوجی بورڈ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان اداروں نے مختلف علوم جیسے طبیعیات، کیمیا، حیاتیات، فلکیات، عمرانیات، قانون، اور معاشیات کے لیے اردو اصطلاحات کے ذخیرے مرتب کیے اور کتابی صورت میں شائع بھی کیا۔ اردو سائنس بورڈ نے خاص طور پر سائنسی کتب کے اردو تراجم میں نمایاں خدمات انجام دیں اور ایسی اصطلاحات تیار کیں جن کی مدد سے طالب علم انگریزی زبان سے بے نیاز ہو کر سائنسی مفاہیم کو سمجھ سکیں۔ ان اداروں نے عربی، فارسی اور سنسکرت جیسے لسانی ذخائر سے مدد لیتے ہوئے اردو کے مزاج سے ہم آہنگ اصطلاحات متعارف کرائیں، اور بعض اوقات خود نئے الفاظ بھی وضع کیے جو اردو لغت میں شامل ہو گئے۔

اصطلاحات سازی کے اس عمل کو کئی طرح کی تنقید اور چیلنجز کا بھی سامنا رہا۔ ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ بعض اردو اصطلاحات حد درجہ ثقیل اور پیچیدہ ہو گئیں، جنہیں عام قاری یا طالب علم نہ سمجھ سکتا تھا اور نہ ہی روزمرہ علمی استعمال میں لا سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں انگریزی اصطلاحات بدستور تعلیم و تدریس کا حصہ رہیں اور اردو اصطلاحات صرف کتب تک محدود ہو گئیں۔ کچھ ماہرین لسانیات نے ان کوششوں کو ناقص، مصنوعی اور فطری زبان کی روایات سے متصادم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اصطلاحات کو وضع کرنے میں نہ تو اردو کے داخلی مزاج کو مدنظر رکھا گیا اور نہ ہی ان کی عملی افادیت پر توجہ دی گئی۔ اسی وجہ سے بیشتر اردو اصطلاحات رائج نہ ہو سکیں اور آج بھی اعلیٰ تعلیم کے بیشتر اداروں میں انگریزی اصطلاحات کو ہی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اصطلاحات سازی کے دوران تعلیمی اداروں، ماہرین، مترجمین، اور لسانیات دانوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان رہا، جس کے باعث مختلف ادارے ایک ہی اصطلاح کے مختلف متبادل وضع کرتے رہے۔ اس تضاد نے طلبا، اساتذہ اور محققین کو الجھن میں مبتلا کیا اور اردو اصطلاحات کی قبولیت مزید کم ہو گئی۔ اس کے علاوہ، اردو زبان کے خلاف ایک عمومی تعلیمی رویہ، یعنی یہ تصور کہ جدید تعلیم انگریزی کے بغیر ممکن نہیں، بھی اردو میں اصطلاحات سازی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خود اردو دان طبقہ بھی بسا اوقات اردو اصطلاحات کی بجائے انگریزی متبادلات کو زیادہ معتبر سمجھتا ہے، جس سے اردو کا علمی دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے۔

اس تمام تنقید اور مشکلات کے باوجود، اردو میں اصطلاحات سازی کی کوششوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو کسی بھی زبان کی بقا، وقار اور وسعت کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر اردو کو ایک مکمل علمی زبان بنانا ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اصطلاحات سازی کا کام مزید سنجیدگی، تحقیق، اور لسانی بصیرت کے ساتھ کیا جائے۔ ہمیں ایسی اصطلاحات وضع کرنے کی ضرورت ہے جو نہ صرف مفہوم کے لحاظ سے واضح ہوں بلکہ استعمال میں سادہ، عام فہم اور فطری بھی ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے، جامعات، مترجمین، اور لسانی ادارے مل کر ایک ہم آہنگ پالیسی تشکیل دیں اور اس عمل کو وقتی یا سرکاری مجبوری کے بجائے ایک قومی فکری منصوبہ سمجھا جائے۔

اردو زبان میں اصطلاحات سازی کی کوششیں گوکہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکیں، تاہم ان کی موجودگی ایک فکری، ثقافتی اور علمی رجحان کی علامت ہے۔ یہ رجحان اس بات کا غماز ہے کہ اردو صرف ادب و شاعری کی زبان نہیں بلکہ یہ سائنسی، تحقیقی اور فلسفیانہ اظہار کی بھی پوری استعداد رکھتی ہے۔ اس رجحان کو مزید تقویت دینے کے لیے عصری ضروریات، سادہ اظہار، اور تکنیکی مہارت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مستقل، منظم اور باہمی مشاورت پر مبنی لسانی پالیسی کی تشکیل ناگزیر ہے۔ مستقبل میں اگر یہ کوششیں سنجیدگی سے جاری رہیں، تو اردو نہ صرف قومی سطح پر ایک مضبوط علمی زبان کے طور پر ابھرے گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی حیثیت منوا سکتی ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں