کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

نسيم حجازی کی تاريخی ناول نگاری کا تحقيقی اور تنقيدی تجزيہ

نسیم حجازی اردو ادب کے اُن ممتاز ناول نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے تاریخی ناول کو نہ صرف مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچایا بلکہ تاریخ کو فکشن کے قالب میں ڈھال کر اردو قارئین کو ایک نئی فکری سمت اور جذبۂ عمل عطا کیا۔ ان کی تاریخی ناول نگاری کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں ان کے فکری رجحانات، بیانیے کی تکنیک، کردار نگاری، تاریخی صداقت، اور ان کی نثر کے اسلوب پر تفصیلی نظر ڈالنی چاہیے۔ نسیم حجازی کا اصل کمال یہی ہے کہ انہوں نے ماضی کی داستانوں کو صرف رومانوی یا فنتاسی رنگ میں نہیں پیش کیا بلکہ ان میں مقصدیت، قومی وقار، اسلامی شناخت اور جدوجہدِ آزادی کا وہ جذبہ پیدا کیا جس نے کئی نسلوں کے اذہان کو متاثر کیا۔

نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا۔ وہ بیسویں صدی کے وسط میں اردو ادبی افق پر ابھرے، جب تحریکِ پاکستان، آزادی، اور نوآبادیاتی نظام کے اثرات اردو ادب پر غالب آ رہے تھے۔ انہوں نے اسی ماحول میں ایک ایسی صنف کو فروغ دیا جو اس سے پہلے اردو ادب میں محدود اور مخصوص حلقوں تک محدود تھی۔ تاریخی ناول اگرچہ اردو میں اس سے پہلے بھی لکھے جا چکے تھے، جیسے عبدالحلیم شرر، مولانا شبلی نعمانی اور عبداللہ نے کچھ مثالی کوششیں کیں، لیکن نسیم حجازی نے اس صنف کو عوامی سطح پر مقبول کیا اور اسے قومی شعور سے جوڑا۔

ان کے مشہور ناولوں میں “شاہین”، “خاک اور خون”، “قافلہ حجاز”، “محمد بن قاسم”، “اندھیری رات کے مسافر”، “یوسف بن تاشفین”، “آخری چٹان”، “معرکۂ مرو”، “اور تلوار ٹوٹ گئی” شامل ہیں۔ ان ناولوں میں اسلامی تاریخ کے درخشاں ادوار جیسے اندلس، خلافتِ عباسیہ، خلافتِ عثمانیہ، ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کی حکمرانی اور زوال، اور تحریکِ پاکستان کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کی تحریروں میں مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستانیں اس انداز میں بیان کی گئی ہیں کہ ایک طرف تاریخی شعور بیدار ہوتا ہے اور دوسری جانب قاری کا قلب حبِ وطن، حبِ اسلام اور قومی خودی سے سرشار ہو جاتا ہے۔

تحقیقی زاویے سے دیکھا جائے تو نسیم حجازی نے تاریخی مواد کے حصول میں بہت محنت کی۔ ان کے ناولوں میں واقعاتی ترتیب، تاریخی کرداروں کی موجودگی، اور اہم معرکوں کی تفصیلات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ تحقیق کے میدان میں سنجیدہ تھے۔ تاہم نقادوں کا ایک طبقہ یہ اعتراض کرتا ہے کہ ان کی تاریخ نگاری محض فکشن پر مبنی ہے اور وہ تاریخی سچائی کی جگہ جذباتی رنگ آمیزی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ نسیم حجازی مورخ نہیں بلکہ ناول نگار تھے، اور ان کا مقصد حقائق کی تفصیل نہیں بلکہ تاریخ کی روح کو اجاگر کرنا تھا۔ انہوں نے تاریخی تناظر میں جذبے، کردار، اور اقدار کو اہمیت دی اور ایک مقصدی بیانیہ ترتیب دیا، جو ادب کا بھی ایک جائز دائرہ ہے۔

تنقیدی طور پر اگر دیکھا جائے تو نسیم حجازی کی ناول نگاری میں اسلوب سادہ، روان اور بیانیہ ہے۔ وہ پیچیدہ اسالیب، علامتوں یا تمثیلوں کے بجائے براہِ راست بیانیہ کو پسند کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب خطیبی ہے، جس میں خطابت، جوش، اور نعرہ انگیزی کی جھلک ملتی ہے۔ ان کی تحریر کا مقصد قاری کو محض تفریح مہیا کرنا نہیں بلکہ اس کے اندر ایک جذبہ، ایک تحریک اور ایک مقصد پیدا کرنا ہے۔ اس لیے ان کے ہاں فنی اعتبار سے وہ پیچیدگی یا جدت نظر نہیں آتی جو جدید اردو ناول میں پائی جاتی ہے، لیکن ان کے اسلوب کی قوت، جذبے کی شدت اور بیان کی شفافیت اپنے اندر ایک غیر معمولی تاثیر رکھتی ہے۔

کردار نگاری نسیم حجازی کا ایک اہم پہلو ہے۔ ان کے کردار زیادہ تر مثالی، اصول پسند، بہادر، وفادار اور قربانی دینے والے ہوتے ہیں۔ ان کا ہیرو ہمیشہ اعلیٰ اخلاق، دین داری، اور قومی غیرت سے مزین ہوتا ہے، جب کہ مخالف کردار ظلم، غداری، یا بے غیرتی کا نمائندہ ہوتا ہے۔ یہ دو رنگی، اگرچہ ادبی اعتبار سے سادہ کاری میں شمار کی جا سکتی ہے، مگر یہ اس فکری بیانیے کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے قاری کو ایک خاص اخلاقی سمت دینا چاہتے ہیں۔ ان کی ہیرو پرستی اور اخلاقی تقسیم گو کہ تنقید کا نشانہ بنی، لیکن ان کے قاری نے ان کرداروں میں اپنے مثالی خواب دیکھے اور ان سے متاثر ہو کر عملی زندگی میں تحریک حاصل کی۔

نسیم حجازی کی ناول نگاری پر ایک اہم تنقیدی نکتہ یہ بھی ہے کہ وہ بعض اوقات تاریخی واقعات کو تخیل میں اس حد تک رنگ دیتے ہیں کہ حقیقت اور فکشن میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم اس پر یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ فکشن کا منصب یہی ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کو اس انداز میں پیش کرے کہ وہ محض اطلاع نہ بنے بلکہ ایک جمالیاتی اور فکری تجربہ بن جائے۔ نسیم حجازی نے اپنے ناولوں کے ذریعے وہی کیا۔ انہوں نے تاریخ کو محض ماضی کا بوجھ نہ بنایا بلکہ اسے ایک زندہ اور متحرک روایت میں بدل دیا، جو حال کو روشن کرے اور مستقبل کے لیے رہنمائی دے۔

ان کی تحریروں میں استعمار مخالف بیانیہ بھی نمایاں ہے۔ وہ نوآبادیاتی نظام کو صرف سیاسی تسلط نہیں بلکہ فکری غلامی تصور کرتے ہیں، اور اپنے ناولوں میں ہمیشہ ایک آزاد، خود دار اور باوقار مسلمان کا تصور پیش کرتے ہیں۔ ان کے کردار آزادی کے متوالے، دین کے محافظ، اور تہذیب کے امین ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں نے تحریکِ آزادی کے زمانے میں اور بعد ازاں تحریکِ اسلامی اور نظریۂ پاکستان کے فروغ میں ایک نظریاتی کردار ادا کیا۔ ان کے ناول نہ صرف تاریخ کے دروازے کھولتے ہیں بلکہ ایک قومی شعور بھی پیدا کرتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری اردو ادب کا ایک ایسا باب ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی تحریروں میں تحقیق، تخیل، مقصدیت، اور فکری شعور کی وہ آمیزش ہے جو اردو ناول کے دائرے کو وسعت بھی دیتی ہے اور اردو قاری کو ایک فکری و جذباتی ربط بھی فراہم کرتی ہے۔ ان پر تنقید کی جا سکتی ہے کہ وہ زیادہ جذباتی یا تصوراتی ہیں، لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے اردو زبان میں تاریخی شعور، قومی تشخص، اور اسلامی نظریۂ حیات کو ادب کے ذریعے زندہ کیا۔ ان کی تاریخی ناول نگاری ایک فکری تحریک بھی ہے، ایک ادبی تحریک بھی، اور ایک تہذیبی استعارہ بھی جو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں