کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو ادب میں خردا فروزی اور روشن خيالی کی روايت

اردو ادب میں خرد افروزی اور روشن خیالی کی روایت ایک ایسا فکری و ادبی سلسلہ ہے جس نے زبان و بیان کے ذریعے نہ صرف معاشرے کی فکری تشکیل کی بلکہ ذہنی آزادی، سائنسی شعور، فرد کی خودمختاری، اور تہذیبی تنوع جیسے موضوعات کو بھی اجاگر کیا۔ یہ روایت محض مغربی اثرات کی مرہون منت نہیں بلکہ برصغیر کے داخلی فکری ارتقا، تصوف کی عقلی جہت، اصلاحی تحریکوں کی بیداری، اور نوآبادیاتی دور کی علمی و سماجی کشمکش کا حاصل بھی ہے۔ اردو ادب میں خرد افروزی کی بنیاد ہمیں سرسید احمد خان، حالی، شبلی اور ان کے ہم عصر مصلحین کی کاوشوں میں ملتی ہے جنہوں نے مذہب، روایت، جدیدیت اور سائنسی فکر کو ایک ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ سرسید نے جہاں مذہبی جمود اور روایت پرستی پر تنقید کی، وہیں ان کے رفقا نے شاعری، نثر اور تنقید میں استدلال، منطق اور فکری تنوع کے در وا کیے۔ یہ دور اردو ادب میں ایک نئے ادبی شعور کا آغاز تھا، جس میں اندھی تقلید کے بجائے دلیل، تجربہ اور مشاہدے کو اہمیت دی گئی۔

خرد افروزی کی یہ روایت صرف مصلحین تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے ترقی پسند تحریک کے تحت ایک نئے قالب میں جنم لیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب دنیا نوآبادیاتی نظام، صنعتی انقلاب، اور سیاسی انقلابات سے دوچار تھی، اردو ادب میں فیض، جوش، مجاز، علی سردار جعفری، اور دیگر ترقی پسند شعرا نے سماجی انصاف، معاشی برابری، عورت کی آزادی، اور علم و شعور کی روشنی کے پیغامات کو اپنے شعری لب و لہجے میں شامل کیا۔ ان کے ہاں خرد افروزی صرف سائنسی یا منطقی سوچ تک محدود نہیں بلکہ سماجی تبدیلی، طبقاتی شعور اور استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کا مترادف بن گئی۔ ترقی پسند ادب میں خرد افروزی کا مفہوم ایک انقلابی جدوجہد میں ڈھل گیا، جو معاشرے کی جڑوں میں بیٹھے استبداد، جبر، اور ناانصافی کو چیلنج کرتا ہے۔

اردو افسانے میں بھی خرد افروزی کی روایت نے ایک فکری تحریک کی شکل اختیار کی۔ سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اور عصمت چغتائی جیسے ادیبوں نے انسانی نفسیات، جنسی مسائل، عورت کی شناخت، اور سماجی تضادات کو کہانیوں کا موضوع بنایا۔ منٹو کی تحریروں میں جس بے رحمی سے سماجی منافقت کو بے نقاب کیا گیا، وہ دراصل ایک عقلی اور استدلالی مزاج کا اظہار ہے جو سچ کو سچ کہنے سے گریز نہیں کرتا۔ عصمت چغتائی کی تحریریں عورت کی داخلی دنیا میں جھانکنے والی وہ شعوری کاوشیں ہیں جنہوں نے نسائی فکر کو عقلی بنیادیں فراہم کیں۔ ان تمام ادیبوں کی تخلیقات میں خرد افروزی محض ایک فکری نعرہ نہیں بلکہ جرات اظہار، سچائی کی تلاش، اور انسانی آزادی کا ایک مسلسل جدلیاتی عمل ہے۔

اردو نثر، خاص طور پر تنقید اور خاکہ نگاری میں بھی روشن خیالی اور خرد افروزی کی جھلک نمایاں ہے۔ محمد حسن عسکری، نیاز فتح پوری، ابوالکلام آزاد، اور بعد ازاں شمس الرحمن فاروقی جیسے ناقدین نے ادب کو صرف جذباتی اظہار کے بجائے ایک شعوری عمل کے طور پر دیکھا۔ عسکری کے ہاں اگرچہ بعد میں رجعت پسندی کا رجحان بھی پایا جاتا ہے، لیکن ان کی ابتدائی تحریروں میں مغربی فکر، علامتی فہم، اور عقلی تجزیے کی ایک سنجیدہ روایت موجود ہے۔ فاروقی نے اردو تنقید کو محض تاثراتی یا کلاسیکی روایت سے نکال کر جدید لسانیات، ساختیات، اور ما بعد جدید نظریات کے حوالے سے ایک عقلی اور سائنسی بنیاد عطا کی۔

روشن خیالی کی روایت کو اردو ادب میں صوفیانہ شاعری سے بھی الگ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ صوفیا نے بھی عقل کو روحانیت کا دروازہ کہا۔ وہ علم کے بغیر عرفان کو ممکن نہیں سمجھتے تھے۔ بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، شاہ حسین، اور وارث شاہ کی شاعری میں خرد کی روشنی اور سچائی کی تلاش ایک روحانی تجربے میں ڈھل جاتی ہے، جو انسانی انا، خودی اور کائناتی حقیقتوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ بھی خرد افروزی ہی کی ایک صورت ہے، جو عقل و عشق کے باہمی امتزاج سے جنم لیتی ہے۔

اکیسویں صدی کے اردو ادب میں خرد افروزی اور روشن خیالی نے نئے موضوعات، نئے اسالیب، اور نئی فکری سمتوں کے ساتھ سفر جاری رکھا ہے۔ ما بعد نوآبادیاتی مطالعہ، نسائیت، ماحولیاتی ادب، اور اقلیتی بیانیہ جیسے رجحانات نے ادب کو صرف تخیل اور جذبے کا میدان نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک زندہ، با شعور، اور علمی سرگرمی بنا دیا ہے۔ موجودہ دور کے ناول نگار، افسانہ نویس، اور نقاد اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ادب اگر عقل و شعور سے خالی ہو تو محض تفریح بن جاتا ہے۔ اس لیے آج بھی وہی ادب دیرپا اثر رکھتا ہے جو انسانی شعور کو جگاتا، سوالات کو جنم دیتا، اور سچائی کی جستجو میں مددگار ہوتا ہے۔

نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ اردو ادب میں خرد افروزی اور روشن خیالی کی روایت محض مغرب سے مستعار تصور نہیں بلکہ برصغیر کی اپنی فکری، علمی، اور تہذیبی ترقی کا حاصل ہے۔ اس روایت نے ادب کو جمود سے نکال کر ایک ایسی فکری اور تنقیدی سطح پر فائز کیا ہے جہاں نہ صرف فرد کا شعور بیدار ہوتا ہے بلکہ سماج کی تشکیل نو کے امکانات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اردو ادب کے اس روشن پہلو کو زندہ رکھنا آج کے علمی زوال اور فکری مغالطوں کے دور میں ایک ناگزیر فریضہ ہے، تاکہ ادب صرف یادداشت کا حصہ نہ بنے بلکہ بصیرت کا سرچشمہ بھی رہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں