اردو اور راجستھانی بولیوں کا تقابلی مطالعہ برصغیر کی لسانی تاریخ، ثقافتی تنوع اور تہذیبی ارتقاء کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ دونوں زبانیں اگرچہ الگ الگ لسانی حیثیت رکھتی ہیں، تاہم ان کی جڑیں ایک ہی تہذیبی زمین سے پھوٹتی ہیں جہاں صدیوں سے مختلف قومیں، نسلیں، اور ثقافتیں ایک دوسرے سے متعامل رہی ہیں۔ اردو زبان کی پیدائش دہلی اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوئی، جہاں ترکوں، مغلوں، اور مقامی ہندوستانی آبادی کے میل جول سے ایک نئی زبان نے جنم لیا، جس میں فارسی، عربی، ترکی اور مقامی ہندی بولیوں کے عناصر شامل تھے۔ دوسری طرف راجستھانی زبان دراصل کئی بولیوں کا مجموعہ ہے، جن میں مارواڑی، میواڑی، شیخاوتی، ہاڑوتی، دھونڈی، اور میواتی وغیرہ شامل ہیں، اور یہ تمام بولیاں راجستھان کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ اردو نے جہاں تہذیب، دربار، شعر و ادب اور تعلیم کے میدان میں ترقی کی، وہیں راجستھانی بولیاں لوک ادب، عوامی گیت، رزمیہ شاعری، اور قصہ گوئی کی روایت کی علمبردار بنیں۔ دونوں زبانوں میں ایک مشترکہ لسانی میراث موجود ہے جس کا سراغ صرف لغات یا صرف و نحو سے نہیں بلکہ تہذیبی میل جول، لوک روایتوں، اور روزمرہ زندگی کے فکری اور ثقافتی رویوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اردو اور راجستھانی بولیوں میں صوتیاتی، صرفی، نحوی اور معنوی سطح پر کئی مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ دونوں زبانوں کا بنیادی ڈھانچہ ہند آریائی ہے، اور ان کے کئی الفاظ، محاورے، اور ضرب الامثال ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ مثال کے طور پر راجستھانی بولیوں میں مستعمل کئی الفاظ اردو میں بھی اسی یا قریب المعنی صورت میں پائے جاتے ہیں، جیسے “گھوڑو” (گھوڑا)، “چاکری” (نوکری)، “مارو” (مارنا)، “بئی” (بہن) وغیرہ۔ اسی طرح بول چال میں راجستھانی کے جو جملہ ساختی سانچے ہیں، ان میں بھی اردو کے ابتدائی اور عوامی ڈھانچوں سے قربت پائی جاتی ہے۔ راجستھانی کی علاقائی بولیوں میں تلفظ کا وہی کھردرا پن اور لہجے کی وہی سختی پائی جاتی ہے جو اردو کے دہلی، میرٹھ اور روہیل کھنڈی لہجوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ مماثلتیں کسی محض اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ صدیوں کے ثقافتی ربط اور سماجی ہم آہنگی کا ثبوت ہیں۔
اردو زبان اگر درباری تہذیب کی نمائندہ ہے تو راجستھانی بولیاں عوامی ثقافت کی مظہر ہیں۔ راجستھانی ادب میں جو لوک گیت، رزمیہ داستانیں، بالخصوص “پابو جی کی پرا”، “تھوری” اور “بیجا” جیسے رزمیہ قصے موجود ہیں، وہ زبان کو نہ صرف زندہ رکھتے ہیں بلکہ اس کے صوتیاتی امکانات کو بھی وسعت دیتے ہیں۔ اردو شاعری میں جو تغزل، عشق، تصوف اور فلسفہ نظر آتا ہے، راجستھانی شاعری میں اس کا جوڑ عوامی جذبوں، دیہی زندگی، قربانی، وفاداری، اور علاقائی فخر کے بیانیے سے ملتا ہے۔ ایک طرف اردو کے ہاں میر، غالب، اقبال، فیض اور ناصر جیسے شعرا کی فکری بلندی ہے، تو دوسری طرف راجستھانی میں مہاراجہ چتر بھوج، کھیم کھانی، مہاراجہ مان سنگھ، اور ڈنگل شاعری کی قدیم روایتیں زندہ ہیں۔
راجستھانی بولیوں اور اردو کے درمیان ایک اور اہم ربط وہ ہے جو صوفیا کے کلام، بھجن، دوہوں اور لوک شاعری کے ذریعے پیدا ہوا۔ سندھ، راجستھان، پنجاب اور ہریانہ کے علاقوں میں کئی صوفی بزرگوں نے جس عوامی زبان کو اپنے پیغام کا وسیلہ بنایا، وہ کبھی خالص اردو، کبھی برج، کبھی راجستھانی اور کبھی ہندوی کا آمیزہ ہوتی تھی۔ بابا فرید، کبیر، میرا بائی اور دوسرے کئی شعرا کی شاعری ایسی زبان میں ہے جو اردو اور راجستھانی دونوں کی شناخت سے جڑی محسوس ہوتی ہے۔ اردو نے اس زبان کو کلاسیکی انداز میں اپنایا اور اس کے اندر سے تصوف، عشق اور حکمت کے عناصر کو چن کر اسے فنی بلندی دی، جبکہ راجستھانی نے اسی زبان کو اپنی عوامی روایت میں زندہ رکھا اور اسے لوک گیتوں، براتوں، تہواروں اور معاشرتی رقص و گیت کی شکل میں فروغ دیا۔
لسانی تاریخ کے لحاظ سے راجستھانی بولیاں اردو سے زیادہ قدیم ہیں، اور انہیں قدیم پراکرت، اپ بھرنش اور شورو سینی کے ارتقائی سلسلے سے جوڑا جاتا ہے۔ لیکن اردو نے انہی زبانوں سے ساخت، الفاظ، اور اسلوبی سانچے اخذ کر کے انہیں ایک نئے تہذیبی اور فکری سانچے میں ڈھالا۔ اردو کی تشکیل میں جہاں فارسی اور عربی کا گہرا اثر ہے، وہیں اس کی بنیاد مقامی بولیوں پر ہے جن میں راجستھانی کا حصہ ناقابلِ انکار ہے۔ دہلی، آگرہ، میرٹھ، لکھنؤ اور حیدرآباد جیسے مراکز میں اردو کا جو ابتدائی ڈھانچہ ابھرا، اس میں راجستھانی، برج اور کھڑی بولی کی آمیزش ایک قدرتی لسانی عمل کا نتیجہ تھی۔
آج بھی پاکستان کے سرحدی علاقوں، جیسے تھرپارکر، عمرکوٹ، میرپور خاص، چولستان اور جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں راجستھانی بولیوں اور اردو کا جادو ایک ساتھ نظر آتا ہے۔ لوگ باہمی گفتگو میں دونوں زبانوں کے الفاظ، لہجے اور محاورے استعمال کرتے ہیں، اور یوں ایک لسانی ہم آہنگی جنم لیتی ہے جو صرف زبان ہی نہیں بلکہ تہذیب کی ہم آہنگی بھی ہے۔ راجستھانی گیت آج بھی اردو کے مشاعروں میں ترنم کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں، اور اردو نثر میں کئی ادیبوں نے راجستھانی کردار، ماحول اور روایت کو کہانیوں کا حصہ بنایا ہے۔
ان دونوں زبانوں کا یہ لسانی و تہذیبی تعلق ہمیں بتاتا ہے کہ برصغیر کی زبانیں محض مختلف بولیاں نہیں بلکہ ایک وسیع تہذیبی کائنات کا مظہر ہیں جہاں مختلف رنگ، خوشبوئیں، آوازیں اور لہجے ایک دوسرے کے ساتھ گُندھے ہوئے ہیں۔ اردو اور راجستھانی بولیوں کا یہ باہمی رشتہ نہ صرف ماضی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ایک روشن مستقبل کی امید بھی دلاتا ہے جہاں لسانی احترام، ثقافتی قبولیت، اور باہمی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ اردو اور راجستھانی بولیوں کا تقابلی مطالعہ ہمیں محض لسانی سطح پر نہیں بلکہ تہذیبی، تاریخی اور سماجی سطح پر بھی ایک گہرا شعور عطا کرتا ہے، جو اس بات کی ضمانت ہے کہ زبانیں اپنے اندر پوری قوموں کی تاریخ، خواب اور فکر سموئے ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان زبانوں کی قدر کریں، ان کے اشتراکات کو پہچانیں، اور ان کے درمیان مکالمہ جاری رکھیں، تو نہ صرف لسانی ورثہ محفوظ رہے گا بلکہ تہذیبی ہم آہنگی کی نئی راہیں بھی کھلیں گی۔