طاہرہ اقبال اردو ادب کی ایک معتبر اور منفرد آواز ہیں جنہوں نے اپنے ناولٹس کے ذریعے پاکستانی سماج، عورت کے وجود، طبقاتی ناہمواری، انسانی رشتوں کے زوال اور تہذیبی اقدار کے بکھرنے جیسے موضوعات کو نہایت فنکارانہ اور فکری انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے ناولٹس کا مطالعہ محض ادبی سطح پر نہیں بلکہ سماجی، نفسیاتی، اور فکری تناظر میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ طاہرہ اقبال کا اسلوب سادگی میں گہرائی رکھتا ہے اور ان کے بیانیے میں وہ حقیقت نگاری پائی جاتی ہے جو جدید اردو فکشن کی بنیادی شناخت بن چکی ہے۔ ان کے ناولٹس میں عورت کا وجود محض مظلوم نہیں بلکہ باشعور، حساس، اور اپنے فیصلوں پر قائم کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔
طاہرہ اقبال کے ناولٹس جیسے “کالے جوتے”، “آدھی رات کا سورج”، “چاندنی کا زہر” اور دیگر تخلیقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ زندگی کو محض سطحی سطح پر نہیں دیکھتیں بلکہ اس کے پسِ منظر میں چھپے سماجی تضادات کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں گاؤں، قصبے اور متوسط طبقے کی زندگی بڑی باریکی سے مصور کی گئی ہے۔ ان کے کردار حقیقی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، جو محرومی، محبت، وفا، رشتوں کے بوجھ، اور خوابوں کے ٹوٹنے جیسے تجربات سے گزرتے ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے مصنفہ نے پاکستانی معاشرے کے اندر چھپے اخلاقی بحران اور طبقاتی تعصب کو بے نقاب کیا ہے۔
تحقیقی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو طاہرہ اقبال کے ناولٹس خواتین فکشن کے ارتقائی سلسلے کا ایک اہم مرحلہ ہیں۔ قرۃ العین حیدر، بانو قدسیہ اور جمیلہ ہاشمی کے بعد طاہرہ اقبال نے اردو فکشن میں عورت کے وجود کو ایک نئے زاویے سے دیکھا۔ وہ عورت کو محض جذباتی پیکر کے طور پر پیش نہیں کرتیں بلکہ اسے ایک فکری اور مزاحمتی علامت بناتی ہیں۔ ان کی نثر میں عورت کی شناخت کا سوال بار بار ابھرتا ہے — کہ عورت اپنی ذات کی پہچان کہاں سے حاصل کرے؟ سماج سے یا اپنے اندر سے؟ اس سوال کا جواب طاہرہ اقبال اپنے کرداروں کے ذریعے تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ان کے ناولٹس کی ایک نمایاں خصوصیت تہذیبی شعور ہے۔ طاہرہ اقبال نے اپنے فکشن میں دیہی کلچر، لوک کہانیوں، اور روایتی اقدار کو جدید احساس کے ساتھ جوڑا ہے۔ وہ معاشرتی اقدار کے زوال پر دکھ کا اظہار بھی کرتی ہیں مگر ماضی پرستی میں مبتلا نہیں ہوتیں۔ ان کے نزدیک ترقی کا مطلب اقدار کی قربانی نہیں بلکہ انسانی وقار کا تسلسل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیانیے میں ماضی، حال، اور مستقبل تینوں کا باہمی رشتہ قائم رہتا ہے۔
طاہرہ اقبال کے ناولٹس کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو ان میں انسان کی اندرونی شکست و ریخت، احساسِ جرم، خوف، محبت اور بے بسی کے عناصر نمایاں ہیں۔ ان کے کردار اکثر ایسے حالات میں نظر آتے ہیں جہاں وہ اپنی تقدیر کے فیصلے خود نہیں کر پاتے۔ یہ کردار جدید معاشرتی نظام کے اندر وجودی بحران (Existential Crisis) کا شکار ہیں۔ ان کی داخلی کیفیات میں وہ کشمکش نمایاں ہے جو ایک حساس انسان کو سماجی پابندیوں، مذہبی منافقت، اور اخلاقی دوغلے پن کے بیچ محسوس ہوتی ہے۔
تنقیدی نقطہ نظر سے طاہرہ اقبال کے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ فطری مکالمہ نویسی اور علامتی بیانیہ استعمال کرتی ہیں۔ ان کی زبان نہایت شفاف، رواں اور فکری طور پر بامعنی ہے۔ وہ مشکل الفاظ یا فلسفیانہ تجرید سے گریز کرتی ہیں مگر سادہ جملوں کے اندر گہرا درد اور معنی چھپا دیتی ہیں۔ ان کے مکالمے کرداروں کے مزاج اور سماجی پس منظر سے مطابقت رکھتے ہیں، جس سے بیانیہ حقیقت سے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔
اگر ان کے ناولٹس کو تاریخی اور سماجی سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو وہ پاکستان کے بدلتے ہوئے معاشرتی ڈھانچے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے ہاں آزادی کے بعد کے خوابوں کی شکست، متوسط طبقے کی جدوجہد، عورت کی خودمختاری کی جنگ، اور مذہبی و ثقافتی منافرت کے اثرات نمایاں طور پر موجود ہیں۔ وہ اپنے فکشن کے ذریعے بتاتی ہیں کہ پاکستان میں عورت کی زندگی اب بھی پدرسری نظام کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے، مگر اب وہ اس ظلم کے خلاف خاموش نہیں بلکہ شعوری احتجاج کر رہی ہے۔
طاہرہ اقبال کے ناولٹس میں علامتی پیرایۂ اظہار بھی نمایاں ہے۔ مثلاً “کالے جوتے” میں جوتے ایک علامت بن جاتے ہیں — طبقاتی امتیاز، خودی، اور شناخت کے بوجھ کی علامت۔ اسی طرح “آدھی رات کا سورج” میں روشنی اور اندھیرے کا استعارہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کا ضمیر کب جاگتا اور کب سو جاتا ہے۔ یہ علامتی اسلوب طاہرہ اقبال کے فکشن کو محض سماجی حقیقت نگاری سے بلند کر کے فکری اور جمالیاتی سطح پر لے آتا ہے۔
ان کے ناولٹس کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ وہ وقت اور یادداشت کے بیانیے کو فنکارانہ انداز میں استعمال کرتی ہیں۔ ماضی اور حال کا امتزاج ان کے ہاں ایک فنی ساخت کے طور پر ابھرتا ہے، جس کے ذریعے وہ قاری کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ زندگی کے تمام تجربے دراصل ایک ہی زنجیر کے مختلف حلقے ہیں۔ یہی طرزِ بیان ان کے ناولٹس کو گہرائی اور تہہ دار معنی عطا کرتا ہے۔
تحقیقی اعتبار سے طاہرہ اقبال کی تخلیقات کو اردو ناول کے نسائی مطالعے (Feminist Criticism) کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے کردار اپنی ذات، جسم، محبت اور زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق مانگتے ہیں۔ وہ عورت کو مرد کے تابع وجود کے طور پر نہیں بلکہ ایک خودمختار انسان کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ اس طرح ان کا فکشن عورت کی آزادی کی تحریک کا ادبی استعارہ بن جاتا ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ طاہرہ اقبال کے ناولٹس اردو ادب میں نہ صرف سماجی اور فکری بصیرت کا مظہر ہیں بلکہ ایک ایسے عہد کی دستاویز بھی ہیں جو تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی اور ثقافتی پس منظر میں عورت، انسان، اور اقدار کے نئے تعینات تلاش کر رہا ہے۔ ان کی تحریریں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ادب محض تفریح یا رومان نہیں، بلکہ زندگی کی سچائیوں کا آئینہ ہے۔ طاہرہ اقبال نے اپنے فن کے ذریعے اردو فکشن کو ایک نیا شعور، ایک نئی آواز، اور ایک زندہ انسانی تجربہ عطا کیا ہے — جو آنے والے زمانوں میں بھی تحقیق اور تنقید کے لیے ایک مضبوط حوالہ بنے گا۔



