بانو قدسیہ اردو ادب کی وہ عظیم تخلیق کار ہیں جنہوں نے نہ صرف خواتین افسانہ نگاروں میں منفرد مقام حاصل کیا بلکہ اردو نثر، خاص طور پر ناول اور افسانے کو ایک ایسی فکری اور روحانی گہرائی عطا کی جو آج بھی قارئین کے دل و دماغ کو متاثر کرتی ہے۔ ان کی شخصیت، فکری وسعت، تہذیبی آگہی اور روحانی میلان نے ان کے فن کو ایک نیا رخ دیا اور ان کے تخلیقی اسلوب کو اردو ادب کی روایت میں ایک جداگانہ مقام بخشا۔ وہ محض ایک ناول نگار یا افسانہ نویس نہیں تھیں، بلکہ روحانیت، تصوف، معاشرت اور انسانی نفسیات کی باریکیوں کو کہانی کی صورت میں پیش کرنے والی ایک ایسا ذہن تھیں جنہوں نے ادب کو محض لفظوں کی ترتیب نہیں بلکہ باطن کی روشنی سے منور کیا۔ ان کی تحریریں قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں، اور ان میں ایک ایسا داخلی سوز اور فکری روشنی ہوتی ہے جو محض مطالعے کا نہیں بلکہ زندگی کے تجربے کا حصہ بن جاتی ہے۔
بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو فیروزپور، ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اسی دوران ان کی ملاقات اشفاق احمد سے ہوئی، جو بعد میں ان کے ہم سفر بنے۔ بانو قدسیہ کی ابتدائی شناخت ایک افسانہ نگار کے طور پر بنی، لیکن جلد ہی ان کا نام اردو ناول کے افق پر چمکنے لگا۔ ان کا سب سے مشہور ناول راجہ گدھ اردو ادب کی تاریخ میں ایک ایسی تخلیق ہے جس نے روایتی ناول نگاری کے اسلوب سے ہٹ کر انسانی جبلت، حرص، حرام و حلال کے نفسیاتی اثرات، اور روحانی سوالات کو کہانی کی شکل میں بیان کیا۔
راجہ گدھ صرف ایک ناول نہیں بلکہ ایک فکری اور اخلاقی بیانیہ ہے۔ اس ناول میں بانو قدسیہ نے انسانی حرص و طمع کو “گدھ” کی علامت سے تعبیر کیا ہے، اور اس کے ذریعے معاشرتی زوال اور روحانی انحطاط کو بیان کیا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ رزقِ حلال یا حرام صرف ایک مذہبی یا اخلاقی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی شخصیت کی ساخت، اس کے فیصلے، اور اس کی تقدیر کو متاثر کرنے والا بنیادی عنصر ہے۔ اس ناول نے بانو قدسیہ کو صرف ایک کامیاب ناول نگار نہیں بلکہ ایک فکری رہنما اور روحانی دانشور کے طور پر سامنے لایا۔
بانو قدسیہ کا اسلوب سادہ، رواں، اور پر اثر ہے۔ ان کی زبان میں خطیبانہ شوکت یا شعری تزئین نہیں، بلکہ ایک فطری بہاؤ، اندرونی سوز، اور فکری دردمندی ہے۔ وہ جذبات کو بیان کرنے میں مبالغہ نہیں کرتیں بلکہ انسانی تجربات کو ایسی زبان دیتی ہیں جو عام قاری کی فہم میں آ جائے مگر اثر میں گہری ہو۔ ان کے افسانے زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اس کی اپنی کہانی ہو۔ دست بستہ، چہار چمن، آم آدمی، بازگشت اور دیگر کئی مجموعے ان کی اس فنی مہارت کی گواہی دیتے ہیں۔
بانو قدسیہ کی تخلیقات میں روحانیت اور تصوف کا عنصر بہت نمایاں ہے، جس کی ایک وجہ ان کی ذاتی زندگی میں اشفاق احمد سے گہرا فکری اور روحانی تعلق بھی تھا۔ ان کی تحریروں میں شخصی ارتقاء، نفس کی پاکیزگی، اور اخلاقی تربیت کا پہلو نمایاں ہے۔ وہ مغرب زدگی اور مادیت پرستی کو تہذیبی زوال کی علامت سمجھتی تھیں اور ان کی تحریروں میں مشرقی اقدار، خاندانی نظام، اور روحانی تربیت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کا افسانوی کینوس اگرچہ محدود کرداروں پر مشتمل ہوتا ہے، مگر اس میں کائناتی سوالات اور وجودی کشمکش کو سادہ پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔
بانو قدسیہ نہ صرف اردو ادب کی ممتاز مصنفہ تھیں بلکہ ان کی شخصیت میں ایک علمی، فکری، اور روحانی سکون بھی تھا جس کا اظہار ان کی مجالس، انٹرویوز اور ذاتی گفتگو میں ہوتا تھا۔ وہ ادب کو محض تفریح یا اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرتی تبدیلی، فکری تربیت، اور روحانی ترقی کا وسیلہ سمجھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں محض جمالیاتی لطف نہیں بلکہ فکری روشنی بھی عطا کرتی ہیں۔ ان کا ایک اور اہم کارنامہ خواتین کے مسائل کو فکری اور تہذیبی انداز میں پیش کرنا ہے۔ وہ عورت کو محض مظلوم یا باغی کے طور پر پیش کرنے کے بجائے ایک فکری وجود، اخلاقی قوت، اور روحانی امکان کے طور پر دیکھتی ہیں۔
بانو قدسیہ کی نثر میں سادگی اور فکری گہرائی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ قاری کو خطابت سے متاثر کرنے کے بجائے فکر کی نرمی سے قائل کرتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں جہاں معاشرتی مسائل کی جھلک ہے، وہیں انسانی باطن کے کرب، تنہائی، اور سکون کی تلاش بھی موجود ہے۔ ان کے ہاں کہانی کا پلاٹ محض واقعاتی نہیں بلکہ داخلی سفر کا منظرنامہ ہوتا ہے، جس میں قاری خود کو ایک ہم سفر کے طور پر پاتا ہے۔
انہوں نے کئی ڈرامے بھی تحریر کیے، جن میں پیا نام کا دیا، آدھی بات، اور تھوڑا سا آسماں جیسے معروف ڈرامے شامل ہیں۔ ان کے ڈراموں میں بھی وہی فکری روشنی، تہذیبی جمالیات اور اخلاقی کشمکش دکھائی دیتی ہے جو ان کی نثر میں موجود ہے۔ بانو قدسیہ نے جس یکسوئی، سچائی اور دیانت سے ادب تخلیق کیا، وہ آج کے پرشور ادبی ماحول میں ایک نادر مثال ہے۔
بانو قدسیہ نے اپنی زندگی میں کئی اعزازات حاصل کیے، جن میں ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز، اور اردو اکیڈمی کے کئی انعامات شامل ہیں، مگر ان کے اصل اعزاز ان کے قارئین کا وہ گہرا تعلق ہے جو آج بھی ان کی کتابوں سے جڑا ہوا ہے۔ وہ 2017 میں وفات پا گئیں، مگر ان کا ادبی ورثہ آج بھی زندہ ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ان کی تحریریں محض ادب کا حصّہ نہیں بلکہ روح کی غذا ہیں، جو قاری کو بہتر انسان بننے کا سبق دیتی ہیں۔
یوں بانو قدسیہ کی شخصیت اور ان کا ادبی کارنامہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ ایک فکری، روحانی اور اخلاقی روشنی کے منبع کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ان کی تخلیقات نے ادب کو اندر سے منور کیا، اور اردو نثر کو وہ وقار، گہرائی اور روشنی عطا کی جو محض لفظوں کے جوڑ سے حاصل نہیں ہوتی۔ ان کی زندگی ایک سبق ہے کہ خاموشی، دیانت، اور فکری خلوص سے کی گئی خدمت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔