انیس سو اسی سے انیس سو نوے کی دہائی پاکستان میں فکری، مذہبی اور ادبی لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں اسلامی شعور اور مذہبی رجحانات میں ایک نیا جوش پیدا ہو رہا تھا۔ ضیاء الحق کے دور میں ریاستی سطح پر اسلامائزیشن کی پالیسیوں نے مذہبی موضوعات کو ادبی تخلیقات میں بھی جگہ دی۔ اسی پس منظر میں حج کے سفرناموں کی روایت کو ایک نیا زور ملا۔ حج ہمیشہ سے مسلمانوں کے لیے نہ صرف ایک مذہبی فریضہ بلکہ روحانی و جذباتی تجربہ بھی رہا ہے، مگر اس دور کے پاکستانی مصنفین نے اس فریضے کو محض عبادت کے طور پر نہیں بلکہ ایک ’’تجربۂ حیات‘‘ کے طور پر قلم بند کیا۔ ۱۹۸۰ کی دہائی میں حج کے سفرنامے محض واقعاتی بیانات سے آگے بڑھ کر سماجی مشاہدات، سیاسی احساسات اور روحانی مکاشفات کے آئینہ دار بن گئے۔
اس زمانے کے نمایاں سفرنامہ نگاروں میں مولانا محمد الیاس عطّار قادری کا ’’پہلا حج‘‘ خصوصی اہمیت رکھتا ہے، جو ۱۴۰۰ ہجری (۱۹۸۰) کے سفرِ حج پر مبنی ہے۔ یہ سفرنامہ محض ذاتی تاثر کا اظہار نہیں بلکہ اس میں حج کے روحانی پہلوؤں کے ساتھ تبلیغی، اصلاحی اور تربیتی پہلو بھی نمایاں ہیں۔ مصنف نے مکہ و مدینہ کے مناظر کو عشقِ رسولؐ اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کے زاویے سے دیکھا ہے۔ ان کے بیان میں عقیدت اور جذبات کی سادگی جھلکتی ہے۔ اسی دہائی میں دیگر مصنفین مثلاً ڈاکٹر محمد عقیل، شاہین زیدی اور کچھ نعت گو شعرا نے بھی حج کے تجربے کو اپنی نثری و شعری تحریروں میں سمویا۔ ان سفرناموں میں ایک نمایاں رجحان یہ تھا کہ مصنفین محض اپنے سفر کی روداد نہیں سناتے بلکہ خود احتسابی اور تزکیۂ نفس کے پیغامات بھی دیتے ہیں۔
۱۹۸۰ سے ۱۹۹۰ کے درمیان لکھے گئے حج کے سفرنامے زبان و بیان کے لحاظ سے بھی متنوع تھے۔ کچھ مصنفین نے کلاسیکی انداز اپنایا، جس میں عربی و فارسی تراکیب، قرآنی حوالے اور احادیث کے اقتباسات شامل تھے، جب کہ کچھ نے جدید اردو نثر کی سادگی کو ترجیح دی تاکہ عام قاری تک مذہبی تجربہ زیادہ مؤثر انداز میں پہنچے۔ ان سفرناموں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مناظر کا ذکر شاعرانہ انداز میں کیا گیا ہے؛ بعض مصنفین نے بیت اللہ کے دیدار کو زندگی کا سب سے بڑا لمحہ قرار دیا، تو بعض نے وہاں کے نظم و ضبط، بین الاقوامی اجتماع اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کو مرکزی موضوع بنایا۔
اس دور کے حج کے سفرناموں میں ایک اور نمایاں پہلو پاکستانی شناخت اور قومی شعور کا اظہار ہے۔ مصنفین نے جہاں روحانی سکون کی بات کی، وہیں وطن کے حالات پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کے مطابق حج نے انہیں احساس دلایا کہ مسلمان صرف ایک قوم نہیں بلکہ ایک عالمی برادری ہیں۔ یہ شعور پاکستان کے مذہبی اور فکری منظرنامے میں ایک نئی جہت پیدا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تحریروں میں جدید دور کی سہولتوں کا ذکر بھی ملتا ہے، جیسے ہوائی سفر، سعودی حکومت کے انتظامات، پاکستانی قافلوں کی تنظیم اور حاجیوں کے درمیان باہمی تعاون کے مناظر۔
ان سفرناموں کی ادبی حیثیت بھی کم اہم نہیں۔ ان میں زبان کی شستگی، بیان کی روانی اور جذبات کی صداقت نے انہیں اردو نثر کے ادب میں نمایاں مقام دیا۔ بعض ناقدین کے نزدیک ۱۹۸۰ تا ۱۹۹۰ کے حج سفرنامے محض مذہبی نہیں بلکہ سماجی و ثقافتی دستاویزات بھی ہیں، کیونکہ ان میں ایک پاکستانی حاجی کی پوری نفسیاتی کیفیت، وطن سے جدائی کا احساس، حرمین شریفین کی عقیدت اور امت کے احوال سب کچھ سمویا گیا ہے۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ۱۹۸۰ تا ۱۹۹۰ کی دہائی حج کے سفرناموں کے فروغ کی ایک روحانی اور فکری لہر تھی۔ اس دور کے مصنفین نے اپنے قلم سے نہ صرف ایمان کی تازگی بلکہ اسلامی اخوت اور انسانی ہمدردی کے جذبات کو بھی زندہ کیا۔ ان تحریروں میں مذہب، ادب اور قومیت تینوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ آج جب ہم ان سفرناموں کو پڑھتے ہیں تو وہ نہ صرف ماضی کی جھلک دکھاتے ہیں بلکہ آج کے قاری کو بھی ایمان، اخلاص اور وحدتِ امت کے پیغام سے روشناس کراتے ہیں۔



