سماجی طنز سے مراد یہ ہے کہ کسی معاشرے کی کمزوریوں، تضادات، برائیوں اور غیر معقول رویّوں کو ہنسی مذاق یا طنزیہ پیرائے میں بیان کیا جائے تاکہ لوگ ان پر غور کریں اور اپنی اصلاح کریں۔یہ طنز دراصل محض ہنسانے یا مذاق کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے ایک اصلاحی اور فکری مقصد چھپا ہوتا ہے۔ سماجی طنز کرنے والا ادیب یا شاعر معاشرتی بگاڑ پر انگلی رکھتا ہے لیکن ایسا سخت لہجے یا تلخی کے ساتھ نہیں بلکہ شگفتگی اور مزاح کے ذریعے کرتا ہے تاکہ بات قاری کے دل و دماغ میں زیادہ مؤثر طریقے سے اُتر جائے۔
اردو ادب میں سفرنامہ محض ایک ادبی صنف ہی نہیں بلکہ ایک ایسا تخلیقی وسیلہ ہے جو قاری کو مختلف ثقافتوں، معاشرتی رویوں اور انسانی تجربات سے روشناس کرواتا ہے۔ اردو کے سفرناموں نے ہمیشہ قاری کو محض تفریح فراہم نہیں کی بلکہ فکر و نظر کی وسعت، مشاہدے کی باریکی اور سماجی تنقید کے مواقع بھی دیے۔ اسی روایت میں عطا الحق قاسمی کا نام ایک اہم اور نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ قاسمی صاحب نے طنز و مزاح کی دنیا میں جو مقام بنایا، وہی رنگ ان کے سفرناموں میں بھی جھلکتا ہے۔ ان کے سفرنامے محض مختلف ممالک یا شہروں کی روداد نہیں بلکہ معاشرتی طنز کا آئینہ ہیں، جہاں وہ مختلف رویوں، تضادات اور حالات پر قہقہہ لگاتے ہوئے بھی قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اردو ادب میں طنز کی روایت قدیم ہے، مگر اسے بامِ عروج دینے میں جدید ادیبوں نے اہم کردار ادا کیا۔ قاسمی صاحب کا طنز محض کسی کی تحقیر یا ہنسی مذاق کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ سماجی شعور بیدار کرنے اور معاشرتی بیماریوں کی نشاندہی کے لیے طنز کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا طنز قاری کے دل کو چبھتا بھی ہے اور مسکراہٹ بھی بکھیر دیتا ہے۔ قاسمی کا انداز یہ ہے کہ وہ معمولی سے منظر یا واقعات میں ایسی باریکیاں اجاگر کرتے ہیں جو ہمارے معاشرتی تضادات کو عیاں کر دیتی ہیں۔
قاسمی کے سفرناموں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ محض ذاتی تجربات کی کہانیاں نہیں بلکہ سماجی تجزیات ہیں۔ مثال کے طور پر وہ غیر ملکی معاشروں میں پائی جانے والی صفائی، قانون کی پاسداری اور انسانوں کی عزت کو دیکھ کر پاکستانی معاشرت پر طنزیہ تبصرے کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں بڑے مسائل بھی نظرانداز کر دیے جاتے ہیں۔ ان کے یہ طنزیہ اشارے قاری کو اپنی سماجی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
قاسمی کے سفرناموں میں کئی جگہ ایسے طنزیہ جملے اور حالات سامنے آتے ہیں جو سماج کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ وہ اکثر پاکستانی رویوں، بیوروکریسی، بدعنوانی اور غیر ذمہ دارانہ عادتوں پر تنقید کرتے ہیں۔ مثلاً وہ یہ دکھاتے ہیں کہ پاکستانی جب بیرون ملک جاتے ہیں تو مقامی قوانین کی پابندی کرتے ہیں لیکن وطن واپس آتے ہی انہی قوانین کو توڑنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ طنزیہ رویہ ہماری اجتماعی نفسیات کو آئینہ دکھاتا ہے۔
اسی طرح وہ ہوائی جہاز کے سفر کے دوران پاکستانی مسافروں کے غیر منظم رویوں اور شور شرابے کو بیان کرتے ہیں تو قاری کے لبوں پر مسکراہٹ آتی ہے، مگر اس مسکراہٹ کے پیچھے ایک گہرا طنز چھپا ہوتا ہے جو ہمارے معاشرتی بگاڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔
قاسمی کے طنز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تلخی کے بجائے مزاح کے ساتھ آتا ہے۔ وہ قاری کو ہنساتے ہنساتے سنجیدہ پیغام دے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سفرنامے خشک تحقیقی مطالعہ نہیں بلکہ دلچسپ اور دلکش کہانیاں ہیں جو قاری کو اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہیں۔ ان کے یہاں طنز اور مزاح کا ایسا امتزاج ہے جو اصلاحی پہلو کو بھی اجاگر کرتا ہے اور ادبی لذت بھی فراہم کرتا ہے۔
سفرنامہ نگاری کا بنیادی حسن مشاہدے کی باریکی ہے۔ قاسمی صاحب جہاں بھی گئے، وہاں کے مناظر، لوگوں کے رویے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنے مخصوص طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں قلمبند کیا۔ ان کا یہ مشاہدہ سطحی نہیں بلکہ گہرائی لیے ہوتا ہے۔ وہ معمولی سی حرکت یا گفتگو سے پورے معاشرتی مزاج کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی غیر ملکی ہوٹل میں خدمت کی باریکی بیان کرتے ہیں تو ساتھ ہی طنز یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ہوٹلوں میں گاہک کو کس طرح تنگ کیا جاتا ہے۔
قاسمی کے سفرناموں میں سماجی طنز قاری پر دوہرا اثر ڈالتا ہے۔ ایک طرف تو قاری قہقہہ لگاتا ہے اور سفر کی دلچسپ فضا میں کھو جاتا ہے، دوسری طرف اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہماری اپنی معاشرت میں یہ خامیاں کیوں ہیں اور ان کا حل کیا ہو سکتا ہے۔ یوں ان کے طنز میں محض تنقید نہیں بلکہ ایک مثبت پہلو بھی شامل ہے، جو قاری کو اپنی اصلاح کی طرف مائل کرتا ہے۔
قاسمی نے اپنے سفرناموں کے ذریعے پاکستانی معاشرت کی کئی پرتیں کھول کر رکھ دی ہیں۔ وہ سیاستدانوں کی حرکات، سرکاری اداروں کی کرپشن، عوام کی بے حسی اور عام رویوں کی کمزوریوں کو طنز کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ ان کا طنز ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم دوسروں کو تو برا کہتے ہیں مگر اپنی خرابیوں پر کبھی غور نہیں کرتے۔ یہی پہلو ان کے سفرناموں کو محض تفریحی ادب سے نکال کر سماجی دستاویز کی حیثیت دیتا ہے۔
عطا الحق قاسمی کے سفرنامے اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان میں موجود سماجی طنز محض ہنسی مذاق نہیں بلکہ ایک عمیق مشاہدہ، گہری فکر اور معاشرتی شعور کی علامت ہے۔ وہ قاری کو ہنساتے ہنساتے ایسے سوالات چھوڑ جاتے ہیں جو ہماری اجتماعی اصلاح کے لیے نہایت اہم ہیں۔ ان کے طنز میں تلخی کے بجائے ایک شگفتگی ہے جو ان کی تحریروں کو قابلِ قبول اور دیرپا بناتی ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ عطا الحق قاسمی کے سفرنامے اردو ادب میں سماجی طنز کا ایک کامیاب اور دلکش نمونہ ہیں، جہاں قاری کو نہ صرف مسکراہٹ ملتی ہے بلکہ اپنی معاشرت پر نظرثانی کا موقع بھی فراہم ہوتا ہے۔ یہی ان کی تحریروں کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔