عمیرہ احمد کا شمار ان معاصر اردو ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے مذہب، روحانیت اور اخلاقیات کو اپنے تخلیقی اسلوب کے ساتھ جوڑ کر اردو قارئین پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی تحریروں میں جہاں فنی چابک دستی اور بیانیے کی کشش ملتی ہے وہیں ایک واضح اسلامی اور اخلاقی پیغام بھی جھلکتا ہے۔ ان کے ناول حاصل اور لاحاصل خاص طور پر اس حوالے سے اہم ہیں کیونکہ ان دونوں میں انہوں نے انسانی زندگی کے مسائل، گمراہیوں، تلاشِ حقیقت اور بالآخر ایمان و ایقان کی روشنی کو موضوع بنایا ہے۔ ان ناولوں کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عمیرہ احمد محض کہانی گو نہیں بلکہ ایک فکری اور اخلاقی رہنما کے طور پر بھی سامنے آتی ہیں۔
حاصل ایک ایسا ناول ہے جس میں انسانی زندگی کی ناپائیداری اور مادی لذتوں کی بے ثباتی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کہانی کے کردار دنیاوی آسائشوں اور وقتی خوشیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ یہ حقیقت ان پر آشکار ہوتی ہے کہ اصل سکون اور کامیابی ایمان، اللہ کی رضا اور دینی اقدار سے وابستگی میں ہے۔ اس ناول میں کرداروں کی عملی زندگی اور ان کے رویے قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ دنیاوی کامیابیاں کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں، اگر ان میں خدا کی رضا شامل نہ ہو تو وہ لاحاصل ہیں۔ اسلامی اور اخلاقی اقدار کو پیش کرنے کے لیے عمیرہ احمد نے نہ نصیحت آموز انداز اپنایا اور نہ ہی محض واعظانہ رویہ اختیار کیا بلکہ کرداروں کی داخلی تبدیلی، ان کے تجربات اور ان کی تگ و دو کے ذریعے یہ پیغام قاری تک پہنچایا۔
لاحاصل میں بھی یہی موضوع زیادہ گہرائی کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار اپنی زندگی میں مختلف تجربات سے گزرتے ہیں۔ وہ مادی دنیا کی چمک دمک، خواہشات کی شدت اور وقتی جذبات کے حصار میں الجھ کر آخرکار ایک ایسے موڑ پر پہنچتے ہیں جہاں انہیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ اصل سکون اللہ کی یاد اور دین کی پیروی میں ہے۔ اس ناول میں عمیرہ احمد نے یہ دکھایا کہ انسان جب اپنی زندگی کے مقصد کو محض دنیاوی کامیابی تک محدود کر لیتا ہے تو اس کے حصے میں پچھتاوا اور محرومی آتی ہے، لیکن جب وہ دینی اور اخلاقی اقدار کو اپنا لیتا ہے تو اسے ایک ایسا سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے جو کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں ہو سکتا۔
ان دونوں ناولوں میں اسلامی اقدار کو پیش کرنے کا بنیادی طریقہ یہی ہے کہ کرداروں کی عملی زندگی اور ان کے تجربات کو ایک آئینہ بنایا گیا ہے۔ نماز، دعا، صبر، ایثار، محبت، سچائی اور توبہ جیسے تصورات کو کہانی کے تانے بانے میں بڑی خوبصورتی سے پرویا گیا ہے۔ خاص طور پر توبہ اور رجوع الی اللہ کا تصور ان ناولوں کی جان ہے۔ کردار اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود جب خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ان کی زندگی میں تبدیلی آتی ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کو سکون دیتی ہے بلکہ ان کے رویے دوسروں کے لیے بھی خیر اور راحت کا سبب بن جاتے ہیں۔
اخلاقی اقدار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان ناولوں میں رشتوں کی اہمیت اور ان کے تقدس کو خاص جگہ دی گئی ہے۔ والدین، بہن بھائی، شوہر اور بیوی کے رشتوں کو جس حساسیت کے ساتھ عمیرہ احمد نے پیش کیا ہے وہ قاری کو اخلاقی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتا ہے۔ ان کے کردار اپنے رویوں سے یہ سبق دیتے ہیں کہ محبت، قربانی، ایثار اور سچائی جیسے اوصاف انسان کو بڑا بناتے ہیں۔ وہ یہ بھی دکھاتی ہیں کہ جھوٹ، دھوکا اور مفاد پرستی نہ صرف رشتوں کو تباہ کرتی ہے بلکہ انسان کی روحانی زندگی کو بھی ویران کر دیتی ہے۔
عمیرہ احمد نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار کو بھی اسلامی اور اخلاقی اقدار کا مظہر بنایا ہے۔ ان کی خواتین کردار زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتی ہیں لیکن ان کی اصل عظمت اس وقت سامنے آتی ہے جب وہ دین کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ اس رجوع کے ذریعے ان کی شخصیت میں نہ صرف استحکام آتا ہے بلکہ وہ دوسروں کے لیے رہنما بھی بن جاتی ہیں۔ یہ انداز قاری کو یہ پیغام دیتا ہے کہ عورت محض جذبات کا استعارہ نہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی قدروں کی امین بھی ہے۔
تنقیدی اعتبار سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حاصل اور لاحاصل محض ناول نہیں بلکہ ایک فکری اور اخلاقی مکالمہ ہیں۔ عمیرہ احمد نے کہانی کے ذریعے قاری کو سوالات میں الجھایا اور پھر ان سوالات کے جوابات اسلامی اور اخلاقی اقدار کی روشنی میں فراہم کیے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ واعظانہ اور خشک انداز سے گریز کرتی ہیں اور قاری کو کرداروں کے سفر کے ساتھ ساتھ ایک داخلی تجربے سے گزارتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ناول محض ادبی تخلیق نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی تربیت کا ذریعہ بھی ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ عمیرہ احمد کے ناول حاصل اور لاحاصل اسلامی اور اخلاقی اقدار کے مؤثر نمائندہ ہیں۔ ان میں زندگی کی حقیقت، دنیاوی آسائشوں کی ناپائیداری، خدا کی طرف رجوع، رشتوں کا تقدس، سچائی، ایثار اور صبر جیسے اوصاف کو کہانی کے ذریعے نہایت خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ ناول قاری کو نہ صرف ادبی لذت عطا کرتے ہیں بلکہ اس کی زندگی کو اسلامی اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے ایک نئی جہت بھی دیتے ہیں۔