کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

سجاد حیدر یلدرم کا فکر وفن

سجاد حیدر یلدرم اردو ادب کی ان اہم شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں ادب کو نئے رجحانات، نئے اسلوب اور نئے فکری زاویوں سے آشنا کیا۔ وہ محض ایک افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ ایک مصلح، مفکر اور تحریک پیدا کرنے والے ادیب تھے جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اردو ادب میں ایک نئی روح پھونکی۔ یلدرم کی شخصیت میں جہاں مغربی تعلیم و تربیت اور تہذیبی اثرات شامل تھے وہیں مشرقی اقدار اور روایات کا گہرا شعور بھی موجود تھا۔ اسی امتزاج نے ان کے فکر و فن کو ایک ایسا رنگ دیا جس نے اردو ادب کے منظرنامے پر ان کو منفرد مقام عطا کیا۔

سجاد حیدر یلدرم کا فکری جہان زیادہ تر اصلاحی، اخلاقی اور جمالیاتی بنیادوں پر استوار تھا۔ انہوں نے ادب کو محض تفریح یا وقتی جذبات کی تسکین کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ اسے ایک تعمیری اور مقصدی عمل قرار دیا۔ ان کی فکر میں سب سے نمایاں پہلو آزادی اور خودی کا ہے۔ وہ فرد کو اپنی ذات پہچاننے، اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور معاشرتی جمود سے نکلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ادب کا اصل مقصد قوم کی رہنمائی اور ایک بہتر سماج کی تشکیل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں اصلاحی رجحان اور ایک عملی پیغام نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔

یلدرم کی فکر پر مغربی فلسفے اور ادبی تحریکوں کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے یورپ کے سفر کیے، وہاں کی علمی فضا کو قریب سے دیکھا اور اپنے مشاہدات کو اردو قارئین تک پہنچایا۔ ان کے ہاں فرد کی آزادی، معاشرتی انصاف اور عورت کی تعلیم جیسے موضوعات اسی اثر پذیری کا نتیجہ ہیں۔ تاہم وہ مغربی اقدار کو اندھا دھند قبول نہیں کرتے بلکہ انہیں مشرقی تہذیب اور اسلامی شعور کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی فکر میں ایک اعتدال اور توازن ملتا ہے جو ان کے عہد کے لیے نہایت اہم تھا۔

ادبی سطح پر دیکھا جائے تو سجاد حیدر یلدرم اردو نثر میں ایک نئے اسلوب کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے نثر کو محض واقعاتی یا خطیبانہ انداز سے نکال کر اس میں ایک جمالیاتی اور تخلیقی رنگ شامل کیا۔ ان کے افسانے اور مضامین میں رومانویت، سلاست اور شگفتگی نمایاں ہے۔ وہ جذبات کی عکاسی اس انداز سے کرتے ہیں کہ قاری محض کہانی کا لطف ہی نہیں لیتا بلکہ ایک نئے احساس اور نئے شعور سے آشنا بھی ہوتا ہے۔ ان کی نثر میں ایک ایسی روانی اور موسیقیت ہے جو ان کے فن کی انفرادیت کو اجاگر کرتی ہے۔

یلدرم کے افسانے اردو افسانے کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے افسانے کو محض حکایت یا قصہ گوئی کے انداز سے نکال کر اسے جدید فنی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ ان کے افسانوں میں پلاٹ کی مضبوطی، کرداروں کی نفسیاتی گہرائی اور بیانیے کی دلکشی نمایاں ہے۔ وہ زندگی کی تلخیوں اور سماجی حقیقتوں کو بھی موضوع بناتے ہیں لیکن ان کے اسلوب میں ایک رومانوی اور جمالیاتی رنگ شامل ہوتا ہے جو قاری کو کہانی کی طرف کھینچتا ہے۔

ان کے فن میں ایک اور نمایاں پہلو ان کا تاثراتی انداز ہے۔ وہ مشاہدے اور تجربے کو اپنی تحریروں میں اس مہارت سے پیش کرتے ہیں کہ قاری اس منظر یا کیفیت کو اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ ان کی نثر میں منظر نگاری اور کردار نگاری کا کمال پایا جاتا ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعے فضا تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو ان کے فن کو ایک زندہ اور جاندار رنگ عطا کرتی ہے۔

سجاد حیدر یلدرم کے فکر و فن کا ایک اور اہم پہلو عورت کا تصور ہے۔ وہ عورت کی تعلیم، آزادی اور شخصیت کی تکمیل کے بڑے حامی تھے۔ ان کے افسانوں اور مضامین میں عورت کو محض ایک تابع یا ثانوی کردار کے طور پر نہیں بلکہ ایک فعال اور باشعور فرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کی یہ سوچ اس عہد کے لیے بڑی انقلابی تھی جب عورت کو محض گھریلو ذمہ داریوں تک محدود کر دیا گیا تھا۔

تنقیدی اعتبار سے دیکھا جائے تو سجاد حیدر یلدرم کی تحریروں میں بعض مقامات پر اصلاحی اور جذباتی شدت زیادہ ہو جاتی ہے جس کے سبب فن کی باریکی پسِ منظر میں چلی جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اسی شدت نے اردو ادب کو ایک نیا رخ دیا اور قاری کو خواب و خیال کے ساتھ ساتھ حقیقت اور عمل کی دنیا کی طرف متوجہ کیا۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سجاد حیدر یلدرم کا فکر و فن اردو ادب میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی فکر نے ادب کو مقصدی اور تعمیری رخ دیا، جبکہ ان کے فن نے نثر کو ایک نیا جمالیاتی اور فکری اسلوب عطا کیا۔ وہ اردو افسانے کے ابتدائی معماروں میں شامل ہیں جنہوں نے اس صنف کو جدید بنیادوں پر استوار کیا۔ ان کے فکر و فن کا امتزاج اردو ادب کے قاری کو نہ صرف جمالیاتی لذت فراہم کرتا ہے بلکہ ایک عملی پیغام اور فکری بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں