اردو اور سندھی صحافت کا تقابلی مطالعہ برصغیر کی دو بڑی لسانی روایتوں، تہذیبی پس منظر اور فکری رجحانات کے باہمی ربط و امتیاز کو سمجھنے کے لیے ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ دونوں زبانوں میں صحافت کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا، مگر ان کی ترقی، رجحانات، زبان کی ساخت، قارئین کے مزاج، اور سیاسی وابستگیوں میں جو فرق پایا جاتا ہے، وہ ایک نہایت پیچیدہ مگر قابلِ مطالعہ حقیقت ہے۔ اردو صحافت کا آغاز اگرچہ شمالی ہند میں ہوا، مگر جلد ہی اس نے پورے برصغیر میں اثر و رسوخ حاصل کیا، جب کہ سندھی صحافت کی بنیاد زیادہ تر سندھ کے مقامی، قومی، اور لسانی مزاحمتی تناظر میں رکھی گئی۔ اردو صحافت نے ابتدا ہی سے علمی، ادبی اور سیاسی شعور کو ایک ساتھ پروان چڑھایا، جب کہ سندھی صحافت کی بنیادی جہت سندھی قوم کی ثقافت، زبان، اور مقامی شناخت کا دفاع بنی۔ اس تناظر میں جب ہم اردو اور سندھی صحافت کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دو الگ فکری دنیاؤں کی ترجمانی کا سامنا ہوتا ہے، جو بظاہر ایک ہی ملک کے دائرے میں کام کرتی ہیں، مگر ان کے محرکات، اسلوب، اور مقاصد میں نمایاں فرق موجود ہے۔
اردو صحافت کی ابتدا فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، اور کلکتہ کے مطبوعاتی اداروں سے ہوئی، جہاں اردو زبان کو عوامی ابلاغ کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اردو کے پہلے اخبار “جامِ جہاں نما” سے لے کر “اودھ اخبار” اور بعد میں “الہلال”، “زمیندار”، “الامتیاز”، “انقلاب” اور “نوائے وقت” تک، اردو صحافت نے برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیبی اور سیاسی بیداری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اردو زبان، چونکہ مسلمانوں کی تعلیمی اور ادبی زبان بن چکی تھی، اس لیے اردو صحافت نے قومی تحریکوں، مذہبی بیداری، تعلیمی اصلاحات اور بعد میں تحریکِ پاکستان کے لیے ایک فکری میدان فراہم کیا۔ دوسری طرف سندھی صحافت کا آغاز نسبتاً تاخیر سے ہوا اور اس کی نوعیت ابتدا میں زیادہ تر مزاحمتی، ثقافتی اور لسانی تھی۔ پہلا سندھی اخبار “مُرشد” 1858ء میں نکلا، جس کے بعد “الوحید”، “ہلالِ پاکستان”، “عوامی آواز” اور “کاوش” جیسے اخبارات نے سندھی عوام کی قومی شناخت، زبان، زمین، اور سیاست کو نمایاں کیا۔
اردو صحافت نے چونکہ پورے ہندوستان میں اپنے قاری پیدا کیے، اس لیے اس کی زبان نسبتاً معیاری، مہذب، اور وسطی ہندوستان کی ادبی روایت سے جڑی رہی، جب کہ سندھی صحافت کا قاری زیادہ تر سندھ کے دیہی و نیم شہری طبقات سے تعلق رکھتا ہے، جس کی وجہ سے سندھی اخبارات میں زبان زیادہ سادہ، مقامی محاورات سے مزین، اور جذباتی اثر لیے ہوئے ہوتی ہے۔ اردو صحافت نے جہاں جدید سیاسی، معاشی اور سماجی نظریات کو مغربی افکار کے حوالے سے جگہ دی، وہیں سندھی صحافت نے لوک دانش، سندھی قوم پرستی، سندھ کی تاریخ اور صوفی روایت کو اپنے فکری مواد کا حصہ بنایا۔ اردو اخبارات میں قومی و بین الاقوامی سیاست پر مفصل تبصرے اور تجزیے ہوتے ہیں، جب کہ سندھی صحافت کا جھکاؤ مقامی سیاست، زمینوں کے مسائل، ثقافتی پروگراموں، زبان کی بقا، اور عوامی مسائل کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔
اردو صحافت نے وقت کے ساتھ اپنے اسلوب اور تکنیک کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ آن لائن صحافت، ویب ٹی وی، اور موبائل ایپلیکیشنز کی صورت میں اردو صحافت نے تیزی سے ترقی کی، جب کہ سندھی صحافت اس میدان میں قدرے پیچھے ہے، تاہم سندھی زبان میں بھی اب متعدد آن لائن پلیٹ فارم اور ویب سائٹس سامنے آ چکی ہیں جو مقامی زبان میں خبر رسانی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ مگر سندھی صحافت کو اردو صحافت کی طرح قومی سطح پر اثر و رسوخ حاصل نہیں، جس کی ایک وجہ اس کا لسانی دائرہ کار محدود ہونا بھی ہے۔
اردو صحافت، چونکہ پاکستان میں اکثریتی قومی زبان سمجھی جاتی ہے، اس لیے اس کو سرکاری سرپرستی، تعلیمی اداروں، اور اشرافیہ کی مکمل حمایت حاصل رہی، جب کہ سندھی صحافت کو اکثر حکومتی بے رخی، سنسرشپ، اور مالی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ سندھی اخبارات نے متعدد بار زبان کے خلاف اقدامات، نصاب میں سندھی کو کم اہمیت دیے جانے، اور مقامی ثقافت کے خاتمے کے خدشے کے خلاف آواز بلند کی، جس سے سندھی صحافت ایک مزاحمتی رنگ میں ڈھل گئی۔ اس کے برعکس اردو صحافت، اگرچہ سیاسی طور پر کبھی کبھی ریاست سے اختلاف بھی رکھتی ہے، لیکن عمومی طور پر اسے قومی بیانیے کی زبان تصور کیا جاتا ہے۔
اردو صحافت کے قارئین میں تنوع پایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے طلبا، تاجر، مذہبی طبقے، اور متوسط طبقے سے لے کر اشرافیہ تک، اردو صحافت کو پڑھتی ہے، جب کہ سندھی صحافت کا قاری عموماً دیہی سندھ، سندھ کے قوم پرست حلقے، یا علاقائی سیاسی کارکنان ہوتے ہیں، جن کی دلچسپی کا محور مقامی مسائل اور شناخت کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اردو صحافت میں عمومی بیانیہ ریاستی، قومی اور اسلامی ہوتا ہے، جب کہ سندھی صحافت میں بیانیہ عموماً قوم پرستی، علاقائیت، لسانی حقوق، اور ثقافتی تحفظ پر مرکوز ہوتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو صحافت میں خواتین، اقلیتوں اور چھوٹے صوبوں کے مسائل پر گہری توجہ دی جاتی رہی ہے، مگر اس میں عمومی مزاج مرکزی دھارے کی سیاست اور ثقافت سے جڑا ہوا ہے۔ سندھی صحافت میں اگرچہ موضوعات محدود ہیں، مگر ان میں گہرائی، علاقائی تجربے کا صداقت سے بیان، اور زمینی مسائل کی شدت کے ساتھ ترجمانی دکھائی دیتی ہے۔ اردو صحافت کی وسعت اور قبولیت کا دائرہ اگر قومی اور بین الاقوامی ہے، تو سندھی صحافت کی گہرائی، عوامی سطح پر رچاؤ اور مقامی سچائی کی نمائندگی کا پہلو نہایت مضبوط ہے۔
اردو اور سندھی صحافت کا یہ تقابلی مطالعہ ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتا ہے کہ پاکستان جیسے کثیر لسانی ملک میں ہر زبان کی صحافت اپنا ایک مخصوص فکری و تہذیبی بیانیہ رکھتی ہے، اور دونوں زبانیں اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف سیاسی، لسانی اور سماجی جہتوں میں فروغ پاتی ہیں، مگر دونوں نے اپنے اپنے حلقہ اثر میں عوامی شعور کی بیداری، زبان و ثقافت کے فروغ، اور قومی سیاست کے تنقیدی جائزے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ اردو صحافت نے ایک جامع، بین الاقوامی اور فکری نوعیت کی صحافت کو جنم دیا، جب کہ سندھی صحافت نے ایک ثقافتی، علاقائی اور مزاحمتی شعور کو زندہ رکھا، جو مقامی عوام کے جذبات، تاریخ اور زبان کا محافظ بنا۔ اس لیے دونوں صحافتی روایتیں پاکستانی معاشرے کے مختلف مگر لازمی پہلوؤں کی نمائندگی کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے وجود کو تقویت بخشتی ہیں۔ ان کے تقابلی مطالعے سے ہم پاکستان کے اندر موجود لسانی تنوع، فکری کثرت، اور صحافتی ہم آہنگی کے امکانات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔