نعتیہ قصیدہ نگاری اردو ادب کا ایک نہایت اہم اور جلیل القدر باب ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی اور تعظیم کے جذبات سے عبارت ہے۔ اردو شاعری کے مختلف اصناف میں نعت نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے، لیکن نعتیہ قصیدہ نگاری کا اپنا ایک منفرد مقام ہے کیونکہ قصیدہ ایک ہمہ گیر صنف ہے جس میں مدح، فخر، گریز، دعا اور تغزل جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ اردو میں قصیدہ فارسی اور عربی سے آیا، اور ان زبانوں کی روایت میں بھی نعتیہ قصائد بڑی کثرت سے ملتے ہیں۔ عربی کے مشہور قصائدِ نعتیہ میں کعب بن زہیر کا قصیدہ بانت سعاد اور امام بوصیری کا قصیدہ بردہ نمایاں ہیں۔ فارسی میں ان روایات کو فردوسی، انوری، خاقانی اور سعدی نے آگے بڑھایا۔ اردو نے جب قصیدہ کو اپنی ادبی روایت میں شامل کیا تو مدحِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نمایاں موضوع بنایا اور اس طرح نعتیہ قصیدہ نگاری کا آغاز ہوا۔
اردو کے ابتدائی دور میں دکن کی شاعری میں قصیدہ نگاری کو بڑی اہمیت حاصل رہی۔ دکن کے شعراء نے فارسی دبستان کی تقلید میں قصائد لکھے اور ان میں نعتیہ مضامین بھی داخل کیے۔ ولی دکنی کو اردو شاعری کا پہلا بڑا شاعر کہا جاتا ہے، ان کے کلام میں نعتیہ اشعار ملتے ہیں جو نعتیہ قصیدہ نگاری کی بنیاد کو ظاہر کرتے ہیں۔ بعد میں دیگر دکنی شعراء جیسے نصرتی اور ملا وجہی نے بھی اپنے قصائد میں مدح رسول کو جگہ دی۔ ان کے ہاں اگرچہ قصیدے زیادہ تر بادشاہوں اور امیروں کی مدح کے لیے لکھے گئے لیکن اکثر مقامات پر نعتیہ پہلو نمایاں ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نعت اردو قصیدہ نگاری کی روح کے طور پر موجود رہی۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جب اردو قصیدہ نگاری نے دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں میں ترقی کی تو نعتیہ قصیدہ نگاری کو ایک نیا عروج ملا۔ اس دور کے شعراء نے اپنے قصائد میں باقاعدہ نعتیہ حصے شامل کیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح کو قصیدے کا مرکزی موضوع بنایا۔ میر تقی میر، سودا، اور میر انیس جیسے شعراء نے نعتیہ اشعار لکھے۔ سودا اپنے قصیدہ گوئی کے لیے مشہور ہیں، اور ان کے کئی قصائد میں نعتیہ پہلو بڑی شدّت سے موجود ہے۔ ان کے ہاں نعتیہ قصیدہ فنی اعتبار سے بھی بلند پایہ ہے کیونکہ انہوں نے قصیدے کی روایتی صنعتوں اور فنی لوازمات کو استعمال کرتے ہوئے عشق رسول کا اظہار کیا۔ میر انیس اگرچہ مرثیہ نگار کے طور پر معروف ہیں لیکن ان کی شاعری میں نعتیہ مضامین کی جھلکیاں ملتی ہیں اور وہ مرثیوں کے آغاز میں قصیدے کی ہیئت میں نعتیہ اشعار لکھتے ہیں۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں نعتیہ قصیدہ نگاری میں مزید پختگی آئی۔ اس دور میں حالی اور اقبال جیسے عظیم شاعروں نے نعت کو قصیدے کے فنی اور فکری قالب میں ڈھالا۔ حالی کا مسدس حمد و نعت کے جذبے سے لبریز ہے اور ان کے قصائد میں سیرت النبی کے حوالے سے گہری بصیرت ملتی ہے۔ حالی نے نعتیہ قصیدہ نگاری کو صرف جذباتی عقیدت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس میں اصلاحی اور تعلیمی پہلو بھی شامل کیے۔ ان کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مسلمانوں کے زوال کا علاج اور ان کی ترقی کا راستہ ہے۔
اقبال کی شاعری میں نعتیہ قصیدہ نگاری کو ایک نئی فکری جہت ملی۔ ان کے ہاں نعت محض روایتی مدح نہیں بلکہ ایک فکری اور تہذیبی مکالمہ ہے۔ ان کے قصائد جیسے طلوع اسلام، شکوہ اور جواب شکوہ اور دیگر نظموں میں نعتیہ مضامین شامل ہیں جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرکز و محور کی حیثیت دی گئی ہے۔ اقبال نے نبی کریم کو انسانیت کا محسن اور عالمگیر رہنما قرار دیا اور ان کی مدح کو قوم کی بیداری اور فکر کے ارتقا کے ساتھ جوڑ دیا۔ یوں اقبال نے نعتیہ قصیدہ نگاری کو ایک انقلابی اور فکری جہت بخشی۔
نعتیہ قصیدہ نگاری کا ایک اہم پہلو اس کا فنی حسن ہے۔ قصیدے کی روایتی ہیئت میں تشبیب، مدح، فخر اور دعا شامل ہوتے ہیں۔ نعتیہ قصائد میں اکثر شاعر ابتدا میں حسن فطرت یا کسی اور موضوع پر اشعار کہتے ہیں، پھر مدح رسول کی طرف آتے ہیں اور قصیدے کو دعا یا نصیحت پر ختم کرتے ہیں۔ اس ہیئت نے نعت کو ایک بھرپور فنی ڈھانچے میں ڈھال دیا۔ اس میں تشبیہات، استعارات، مبالغے اور صنعتوں کا استعمال مدح رسول کے جذبے کو اور بھی مؤثر بنا دیتا ہے۔
تنقیدی اعتبار سے دیکھا جائے تو نعتیہ قصیدہ نگاری کے چند اہم پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے اس کی دینی و روحانی بنیاد ہے جو اسے اردو شاعری کی دوسری اصناف سے ممتاز کرتی ہے۔ دوسرا پہلو اس کا فنی ارتقا ہے جس کے ذریعے قصیدے کی صنف نے اپنی ہمہ گیری کو نعت کے ساتھ ملا کر ایک نئی جمالیاتی فضا پیدا کی۔ تیسرا پہلو اس کا فکری دائرہ ہے جس میں حالی اور اقبال نے اسے محض جذباتی عقیدت سے نکال کر عملی زندگی اور اجتماعی شعور کے ساتھ جوڑا۔ چوتھا پہلو اس کا تاریخی تسلسل ہے جس نے دکن سے لے کر جدید اردو شاعری تک اپنے اثرات قائم رکھے۔
جدید عہد میں بھی نعتیہ قصیدہ نگاری کا سلسلہ جاری ہے۔ اگرچہ آج کے شعری رجحانات میں قصیدے کی صنف نسبتاً کمزور پڑ گئی ہے لیکن نعتیہ قصائد اب بھی لکھے جا رہے ہیں اور ان میں عقیدت و محبت کا وہی رنگ موجود ہے جو اردو کی ابتدائی صدیوں میں تھا۔ جدید شعرا نے بھی نعتیہ قصیدہ نگاری کو اپنے اپنے انداز میں برتا اور اسے عصری تناظر میں نئے معنوں سے ہمکنار کیا۔
نتیجہ یہ ہے کہ نعتیہ قصیدہ نگاری اردو ادب کا ایک درخشاں باب ہے جو نہ صرف فنی اعتبار سے بلند ہے بلکہ اس میں ایمان و عقیدت کی وہ شدت موجود ہے جو اسے ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ اردو میں نعتیہ قصیدہ نگاری محض ایک صنفی روایت نہیں بلکہ ایک فکری، روحانی اور تہذیبی ورثہ ہے۔ اس نے قصیدے کی صنف کو معنویت عطا کی اور اردو شاعری کو ایک بلند تر روحانی اور جمالیاتی سطح پر پہنچایا۔ اس کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اردو کے شعری سرمایے میں نعتیہ قصائد ہمیشہ مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور آنے والے زمانوں تک ان کی معنویت برقرار رہے گی۔