ناسٹلجیا ایک ایسا نفسیاتی اور جمالیاتی جذبہ ہے جو انسان کو ماضی کی یادوں اور تجربات کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ دراصل یادداشت اور جذبات کا امتزاج ہے جس میں فرد اپنے گزرے ہوئے وقت کو ایک خاص کیف و سرور اور کبھی کرب کے ساتھ یاد کرتا ہے۔ لفظ ناسٹلجیا یونانی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی وطن کی یاد یا ماضی کی تڑپ کے ہیں۔ ابتدا میں یہ ایک طرح کی بیماری یا نفسیاتی عارضہ سمجھا جاتا تھا جو پردیس میں رہنے والے افراد کو لاحق ہوتا ہے لیکن بعد ازاں ادب اور فنون میں یہ ایک اہم جمالیاتی اور تخلیقی رویے کی صورت میں سامنے آیا۔ اردو میں بھی ناسٹلجیا کا تصور وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور ناول جیسے طویل بیانیہ فن میں یہ کیفیت نمایاں طور پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔
ناسٹلجیا بنیادی طور پر دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک کو “ذاتی ناسٹلجیا” کہا جاتا ہے اور دوسرا “اجتماعی ناسٹلجیا”۔ ذاتی ناسٹلجیا اس کیفیت کو کہا جاتا ہے جب کوئی فرد اپنے بچپن، جوانی یا ذاتی تعلقات اور تجربات کو شدت سے یاد کرتا ہے۔ اس میں گھر کی یادیں، تعلیمی اداروں کا ماحول، دوستوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت یا خاندانی تعلقات شامل ہو سکتے ہیں۔ اس نوعیت کے ناسٹلجیا میں فرد اپنے ماضی کو ایک مثالی یا بہتر وقت کے طور پر یاد کرتا ہے اور حال کی سختیوں سے فرار پاتا ہے۔ دوسری طرف اجتماعی ناسٹلجیا اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی پوری قوم یا طبقہ اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے۔ مثلاً کسی خاص تہذیب کا زوال یا وطن کی تقسیم جیسے واقعات لوگوں کو اجتماعی طور پر ایک ماضی کی یاد سے وابستہ کر دیتے ہیں۔ اردو ادب خصوصاً ناول میں دونوں قسموں کی مثالیں موجود ہیں۔
اردو ناول چونکہ زندگی کے گہرے اور کثیر الجہتی تجربات کو سمیٹنے کا فن ہے اس لیے اس میں ناسٹلجیا کی کیفیتیں بہت شدت کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ہیں۔ ابتدا ہی سے اردو ناول میں ایسے کردار ملتے ہیں جو ماضی کے حوالے سے اپنی شناخت اور وجود کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں میں بھی گھریلو اور تعلیمی ماحول کو یاد کرنے کا ایک پہلو ملتا ہے مگر اس وقت ناسٹلجیا اصلاحی رنگ لیے ہوئے تھا۔ اس کے برعکس بعد کے ناول نگاروں نے ناسٹلجیا کو ایک جمالیاتی اور نفسیاتی کیفیت کے طور پر برتا۔
پریم چند کے ناولوں میں کسانوں اور دیہی معاشرت کی عکاسی کے ساتھ ساتھ ماضی کی خوشحال زندگی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اگرچہ وہ حقیقت نگار تھے لیکن ان کی تحریروں میں دیہات کی سادہ زندگی اور کسانوں کی پرانی روایات کو بیان کرتے ہوئے ایک طرح کی یاد ماضی جھلکتی ہے۔ اس طرح ان کے ہاں اجتماعی ناسٹلجیا کے ابتدائی نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔
اردو ناول میں ناسٹلجیا کی سب سے بھرپور اور فنکارانہ صورت قرۃ العین حیدر کے ہاں ملتی ہے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول “آگ کا دریا” دراصل تہذیبی ناسٹلجیا کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ اس میں ہزاروں برس کی تہذیبی تاریخ ایک تسلسل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ قدیم ہندوستان سے لے کر تقسیم ہند تک مختلف ادوار کے کردار اپنی اپنی تہذیب اور ماضی سے جڑے ہوئے ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے تہذیبی یادداشت کو ناسٹلجیا کے ذریعے پیش کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ کس طرح انسان اپنی جڑوں اور ماضی کے بغیر ادھورا ہے۔ ان کے دیگر ناول “گردش رنگ چمن” اور “کار جہاں دراز ہے” بھی یاد ماضی اور تہذیبی تسلسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انتظار حسین کے ناولوں میں ناسٹلجیا ایک اور ہی رنگ میں سامنے آتا ہے۔ ان کے ناول “بستی” اور “آگے سمندر ہے” تقسیم ہند کے بعد کے حالات کا مرقع ہیں۔ ان میں ماضی کے کھوئے ہوئے شہر، برباد بستیاں اور اجڑتی ہوئی قدریں ایک کربناک ناسٹلجیا پیدا کرتی ہیں۔ ان کے کردار ہمیشہ ماضی کے کسی روشن لمحے کو یاد کرتے ہیں اور حال کی بے معنویت سے نجات پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انتظار حسین کے ہاں ناسٹلجیا محض یاد ماضی نہیں بلکہ تہذیبی بقا کی جدوجہد اور گم شدہ شناخت کی تلاش کا استعارہ ہے۔ ان کا انداز علامتی اور استعاراتی ہے جس کے باعث ناسٹلجیا ایک روحانی اور تہذیبی تجربے میں ڈھل جاتا ہے۔
خواتین ناول نگاروں نے بھی ناسٹلجیا کو اپنے انداز میں برتا ہے۔ خدیجہ مستور کے ناول “آنگن” میں تقسیم ہند سے پہلے کے خاندانی اور تہذیبی تعلقات کی یاد اور بعد میں ان کے ٹوٹنے کا کرب نمایاں ہے۔ یہ اجتماعی ناسٹلجیا ہے جس میں ایک خاندان اور اس کے افراد ماضی کی سکون دہ زندگی کو یاد کرتے ہیں اور حال کی تلخیوں سے ٹکرا رہے ہیں۔ بانو قدسیہ کے “راجہ گدھ” میں بھی کردار اپنی یادوں اور تجربات کو ایک خاص ناسٹلجیا کے ساتھ یاد کرتے ہیں اگرچہ وہاں فلسفیانہ پہلو زیادہ غالب ہے۔ عصمت چغتائی کے “ٹیڑھی لکیر” میں عورت کے بچپن اور جوانی کے تجربات کو بیان کرتے ہوئے ایک ذاتی ناسٹلجیا جھلکتا ہے جو عورت کی شناخت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اردو ناول میں جدید دور کے بعض لکھنے والے بھی ناسٹلجیا کو نئے تناظر میں برتتے ہیں۔ مرزا اطہر بیگ کے ناولوں میں یاد ماضی ایک پیچیدہ اور فلسفیانہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ان کے کردار اپنے ذاتی اور اجتماعی ماضی کو کثیر جہتی سطح پر یاد کرتے ہیں اور یہ عمل قاری کو ایک فکری اور جمالیاتی تجربے سے گزار دیتا ہے۔ خالد جاوید کے ناولوں میں ناسٹلجیا وجودی کرب کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جہاں کردار اپنی یادوں اور تجربات کو ایک بے یقینی اور تنہائی کے احساس کے ساتھ دہراتے ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ اردو ناول میں ناسٹلجیا کی کئی جہتیں موجود ہیں۔ کہیں یہ ذاتی یادوں کا اظہار ہے، کہیں اجتماعی تہذیبی تجربات کا عکس ہے۔ کہیں یہ تہذیب کے تسلسل کو اجاگر کرتا ہے اور کہیں زوال اور شکست کے المیے کو۔ بعض اوقات یہ محض رومانوی کیفیت بن کر سامنے آتا ہے اور بعض اوقات یہ تاریخ، سیاست اور شناخت کے مسائل سے جڑ جاتا ہے۔
تنقیدی اعتبار سے دیکھا جائے تو ناسٹلجیا اردو ناول کے بیانیے کو گہرائی اور پیچیدگی عطا کرتا ہے۔ اس سے کرداروں کے نفسیاتی پہلو نمایاں ہوتے ہیں، قاری کو اپنی یادوں اور تجربات سے ربط پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے اور سماجی و تہذیبی شعور بھی ابھرتا ہے۔ اردو کے بڑے ناقدین نے بھی اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ محمد حسن عسکری کے نزدیک اردو ادب میں یاد ماضی ایک طرح کا تہذیبی نرگسیت بھی ہے جو کبھی قوت عطا کرتی ہے اور کبھی قنوطیت پیدا کرتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے قرۃ العین حیدر کے ہاں ناسٹلجیا کو تہذیبی تسلسل اور تاریخ کے شعور کے ساتھ جوڑا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے انتظار حسین کے ہاں ناسٹلجیا کو استعاراتی اور علامتی پیرایہ قرار دیا ہے۔
نتیجتاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناسٹلجیا اردو ناول میں محض ایک نفسیاتی کیفیت نہیں بلکہ ایک جمالیاتی اور تہذیبی رویہ ہے۔ اس نے اردو ناول کو ایک گہرا فکری پس منظر دیا ہے اور ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ چاہے وہ قرۃ العین حیدر کی تہذیبی جستجو ہو، انتظار حسین کی یاد بستیاں ہوں، یا خدیجہ مستور اور عصمت چغتائی کی ذاتی اور خاندانی یادیں، سب میں ناسٹلجیا ایک بنیادی جمالیاتی عنصر کے طور پر کارفرما ہے۔ اس کے بغیر اردو ناول کی کئی بڑی تخلیقات کا تصور ہی ممکن نہیں۔ یوں ناسٹلجیا اردو ناول کے بیانیے کا نہ صرف ایک اہم حصہ ہے بلکہ قاری کے ساتھ جذباتی اور فکری سطح پر ربط پیدا کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ بھی ہے۔