انسانی زندگی محض بقا اور حیاتیاتی تقاضوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں معاشرتی، اخلاقی، جمالیاتی اور روحانی پہلو بھی شامل ہیں۔ ان پہلوؤں کی صورت گری جس عمل کے ذریعے ہوتی ہے، اسے “تہذیب” کہا جاتا ہے۔ تہذیب فرد کو اجتماعی شعور عطا کرتی ہے اور قوم کو انفرادیت۔ ادب خصوصاً ناول چونکہ زندگی کی عکاسی کرتا ہے، اس لیے اس میں تہذیبی شناخت کے مظاہر بڑی شدت اور کثرت کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ اردو ناول نے اپنے آغاز ہی سے تہذیبی پہچان کو موضوع بنایا اور بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ تہذیبی کشمکش اور ارتقا کو بھی نمایاں کیا۔
“تہذیب” لغوی اعتبار سے شائستگی، نرمی اور خوش اخلاقی کے معنوں میں آتا ہے۔ اصطلاحی طور پر تہذیب اس مجموعی طرزِ زندگی کو کہا جاتا ہے جو کسی قوم کے خیالات، عقائد، رسوم و رواج، فنونِ لطیفہ، زبان، ادب اور سماجی اقدار میں جھلکتی ہے۔
تہذیب کی چند بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں:
- اجتماعی اقدار: معاشرتی اصول اور اخلاقی ضابطے۔
- زبان و ادب: اظہارِ فکر و جذبہ کا وسیلہ۔
- فنون و جمالیات: آرٹ، موسیقی، مصوری اور دیگر تخلیقی مظاہر۔
- عقائد و مذہب: روحانی بنیادیں۔
- معاشرتی ڈھانچہ: خاندان، رشتہ داریاں اور طبقاتی نظام۔
یوں تہذیب محض ماضی کی میراث نہیں بلکہ حال کی حقیقت اور مستقبل کی سمت نما بھی ہے۔
اردو ناول کی ابتدا انیسویں صدی میں ہوئی۔ اس زمانے میں برصغیر کی تہذیبی فضا بڑی تیزی سے بدل رہی تھی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال، انگریزی اقتدار کے قیام اور مغربی تہذیب کے اثرات نے ایک نئی کشمکش پیدا کی۔
ناول نگاروں نے اس کشمکش کو اپنی تخلیقات میں جگہ دی اور یوں اردو ناول ایک طرح سے تہذیبی تاریخ کا آئینہ بن گیا۔
اردو ناول میں تہذیبی پہچان کا پہلا بڑا حوالہ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ہیں۔ “مراۃ العروس”، “بنات النعش”، “توبتہ النصوح” اور “ابن الوقت” میں انہوں نے مسلمانوں کی گھریلو اور سماجی زندگی کی جھلکیاں پیش کیں۔
- “مراۃ العروس” میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ عورت کی تہذیبی رویوں میں فرق نمایاں کیا گیا۔
- “ابن الوقت” میں مغربی تہذیب کی اندھی تقلید اور مشرقی اقدار کی کشمکش کو موضوع بنایا گیا۔
یہ ناول بتاتے ہیں کہ نذیر احمد کے نزدیک تہذیب کا اصل سرچشمہ اسلامی اقدار اور تعلیم تھی۔
رتن ناتھ سرشار کا ناول “فسانۂ آزاد“ تہذیبی شناخت کے ایک اور رخ کو سامنے لاتا ہے۔ اس میں لکھنوی تہذیب کی رنگینی، شوخی اور خوش مذاقی کی جھلک ملتی ہے۔ آزاد اور کھوجی کے کردار اس تہذیب کے نمائندہ ہیں، جن میں زندہ دلی اور شگفتگی نمایاں ہے۔
پریم چند نے اردو ناول کو دیہی اور متوسط طبقے کے مسائل سے روشناس کرایا۔ ان کے ناولوں “گوشۂ عافیت”، “بازارِ حسن” اور “گودان” میں ہندوستانی تہذیب کے مختلف پہلو دکھائے گئے۔
- “گودان” میں کسانوں کی زندگی اور طبقاتی نظام کی تلخ حقیقتیں بیان ہوئیں۔
- “بازارِ حسن” میں عورت کی سماجی حیثیت اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ پر روشنی ڈالی گئی۔
پریم چند نے بتایا کہ تہذیب صرف اشرافیہ کے آداب و اطوار تک محدود نہیں بلکہ عوام کی زندگی، ان کے دکھ درد اور جدوجہد بھی تہذیبی شناخت کا حصہ ہیں۔
قرۃ العین حیدر نے اردو ناول میں تہذیبی شعور کو ایک نئی جہت دی۔ ان کا شہرۂ آفاق ناول “آگ کا دریا“ تہذیبوں کے تسلسل اور ارتقا کی داستان ہے۔ اس میں قدیم ہندوستان سے لے کر جدید دور تک کی تہذیبی صورت گری موجود ہے۔
- تہذیب کو انہوں نے محض مذہب یا قومیت تک محدود نہیں کیا بلکہ اسے تاریخ، فنون اور انسانی تجربات کا مجموعہ سمجھا۔
- ان کے دیگر ناولوں “گردشِ رنگ چمن” اور “کارِ جہاں دراز ہے” میں بھی تہذیبی یادداشت اور شناخت کے سوالات نمایاں ہیں۔
انتظار حسین کے ناول “بستی” اور “آگے سمندر ہے” تہذیبی شکست و ریخت کے عکاس ہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کو شدید خطرات لاحق ہوئے، اس المیے کو انہوں نے علامتی اور استعاراتی انداز میں بیان کیا۔
- “بستی” میں ہجرت، بے وطنی اور اجنبی فضا میں اپنی تہذیب کو بچانے کی جدوجہد دکھائی گئی۔
عصری اردو ناولوں میں خواتین ادیبوں نے تہذیب کو عورت کے زاویے سے دیکھا۔ بانو قدسیہ کے “راجہ گدھ”، خدیجہ مستور کے “آنگن” اور عصمت چغتائی کے “ٹیڑھی لکیر” میں عورت کے مسائل اور تہذیبی دباؤ کو نمایاں کیا گیا۔
یہ ناول بتاتے ہیں کہ عورت کی حیثیت کسی بھی تہذیب کی بنیاد اور اس کی اخلاقی قوت ہے۔
اردو ناول میں تہذیبی شناخت کی مختلف جہات سامنے آتی ہیں:
- اصلاحی رجحان: نذیر احمد نے مذہبی و اخلاقی بنیادوں پر تہذیب کی تشکیل پر زور دیا۔
- رنگین شہری تہذیب: سرشار نے لکھنوی تہذیب کی شوخی اور شگفتگی دکھائی۔
- عوامی تہذیب: پریم چند نے کسانوں، مزدوروں اور متوسط طبقے کی زندگی کو تہذیب کا حصہ قرار دیا۔
- تاریخی تسلسل: قرۃ العین حیدر نے تہذیب کو زمان و مکان کے تسلسل میں دیکھا۔
- زوال اور شکست: انتظار حسین نے تہذیبی زوال کے نوحے لکھے۔
- نسائی زاویہ: خواتین ناول نگاروں نے تہذیب کو عورت کی شناخت اور جدوجہد سے جوڑا۔
یوں اردو ناول ایک ایسی کائنات ہے جس میں تہذیب کے تمام پہلو—اصلاح، رنگینی، عوامی جدوجہد، تاریخی شعور، زوال اور نسائی پہچان—اپنی اپنی صورتوں میں موجود ہیں۔
آج کے اردو ناول میں تہذیبی شناخت کے مباحث مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
- عالمگیریت (Globalization) نے مقامی تہذیبوں کو چیلنج کیا ہے۔
- ہجرت اور تارکین وطن کے مسائل نے نئی تہذیبی صورت گری پیدا کی ہے۔
- نئی نسل کے ناول نگار، مثلاً مرزا اطہر بیگ، علی اکبر ناطق اور خالد جاوید، تہذیب کو موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
تہذیب انسان کی اجتماعی زندگی کا وہ حوالہ ہے جو اس کی شناخت اور بقا کا ضامن ہے۔ اردو ناول نے اپنے آغاز سے ہی تہذیبی شناخت کو موضوع بنایا اور مختلف ادوار میں اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔
- نذیر احمد نے اصلاحی پہلو دکھایا۔
- سرشار نے رنگین تہذیب کی جھلک پیش کی۔
- پریم چند نے عوامی زندگی کو تہذیب کا حصہ بنایا۔
- قرۃ العین حیدر نے تاریخ اور تسلسل پر روشنی ڈالی۔
- انتظار حسین نے زوال کا نوحہ لکھا۔
- نسائی ادیبوں نے عورت کے زاویے سے تہذیب کو دیکھا۔
یوں اردو ناول ایک مسلسل تہذیبی مکالمہ ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑتا ہے۔