نوتاریخیت (New Historicism) ادب اور تاریخ کے باہمی ربط کو سمجھنے کی ایک جدید تنقیدی تحریک ہے جس کا آغاز بیسویں صدی کے آخری عشروں میں ہوا، اور اس کے بانیوں میں سب سے نمایاں نام اسٹیفن گرین بلیٹ (Stephen Greenblatt) کا ہے۔ نوتاریخیت کے مطابق ادب محض ایک تخلیقی سرگرمی نہیں بلکہ وہ سیاسی، سماجی، معاشی، اور ثقافتی سیاق و سباق سے جڑا ہوا ایک زندہ مظہر ہے۔ یہ نظریہ تاریخ کو محض ماضی کی سادہ داستان نہیں سمجھتا، بلکہ اس کے بیانیے کو طاقت کے نظام، شناخت کے عمل، اور نظریاتی تشکیل کا حصہ تصور کرتا ہے۔ اردو ادب، خصوصاً تاریخی ناول نگاری میں نوتاریخیت کی روشنی میں نسیم حجازی کی تحریریں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔
نسیم حجازی کا اصل نام شریف حسین تھا۔ وہ 1914ء میں موجودہ بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں “سوہدرہ” میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا، جہاں اردو، فارسی اور عربی ادب کا گہرا ذوق پایا جاتا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آ گئے اور پوری زندگی وہیں قیام پذیر رہے۔ نسیم حجازی کا انتقال 1996ء میں ہوا۔ وہ بیسویں صدی کے ان مقبول ترین اردو ناول نگاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے تاریخی ناول کو عوامی سطح پر غیر معمولی مقبولیت دی۔
نسیم حجازی کا نام اردو تاریخی ناول کی دنیا میں نہایت اہم اور مقبول ہے۔ ان کے ناول صرف تاریخی واقعات کا بیان نہیں، بلکہ وہ ایک مخصوص نظریاتی اور تہذیبی موقف کے ساتھ ماضی کو حال کے لیے ایک استعارے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں تاریخ ایک سرگرم کردار کے طور پر ابھرتی ہے جو مذہبی، اخلاقی اور قومی شناخت کو تقویت دیتی ہے۔ نوتاریخیت کے نقطۂ نظر سے نسیم حجازی کے ناول محض تاریخی دستاویزات نہیں بلکہ وہ ایک خاص طاقت، سیاست، اور نظریاتی شعور کے حامل ادبی بیانیے ہیں۔
مثال کے طور پر، ان کا ناول “شاہین“ اندلس کے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا نوحہ ہے۔ اس میں نسیم حجازی نے ایک مثالی اسلامی معاشرہ اور اس کی اخلاقی، سائنسی اور سیاسی برتری کو پیش کیا۔ لیکن نوتاریخیت کے مطابق، یہ بیانیہ صرف ماضی کا بیان نہیں، بلکہ یہ بیانیہ حال کے مسلم معاشروں میں ایک مخصوص شناخت کو بیدار کرنے کا آلہ بھی ہے۔ یہی “تاریخی بیانیہ” دراصل طاقت کے کسی نہ کسی تصور کو سہارا دیتا ہے، جو نسیم حجازی کی تحریروں میں اسلامی فتوحات اور وحدتِ ملت کے تصور کے طور پر نمایاں ہے۔
“محمد بن قاسم“ بھی اسی طرزِ فکر کی مثال ہے، جس میں حجازی نے ایک نوجوان سپہ سالار کی فتح، دیانت، اور جذبۂ ایمان کو اس طرح پیش کیا کہ وہ محض تاریخ کا کردار نہیں بلکہ ایک ہیرو بن جاتا ہے، جس کے ذریعے قاری کی دینی اور قومی جذبات انگیخت ہوتی ہے۔ نوتاریخیت یہاں اس امر پر زور دیتی ہے کہ تاریخ کو دوبارہ پڑھنے اور برتنے کا یہ عمل خود طاقت، سیاست، اور شناخت کی تخلیق میں شریک ہو جاتا ہے۔
نسیم حجازی کے ناولوں میں ہمیشہ ایک ہی طرح کا نظریاتی سانچہ موجود ہوتا ہے: مسلمان فاتح، نیک کردار، مظلوم اور ایمان دار؛ جب کہ دشمن کردار عموماً اخلاقی طور پر زوال پذیر، ظالم یا سازشی دکھائے جاتے ہیں۔ نوتاریخیت اس یک رخی بیانیے کو چیلنج کرتی ہے اور سوال اٹھاتی ہے کہ تاریخ کو اس قدر سادہ اور قطعی انداز میں بیان کرنا کہاں تک درست ہے؟ اس نظریہ کے تحت، نسیم حجازی کے بیانیے کو محض ایک سچائی کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے پیچھے کارفرما نظریاتی اور ثقافتی ڈھانچوں کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔
نسیم حجازی کی زبان، اسلوب، اور بیانیہ بھی نوتاریخیت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں مخصوص استعارے، علامتیں، اور خطی تقسیمیں نظر آتی ہیں، جیسے “اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی جبر” یا “خلافت بمقابلہ استعمار”۔ نوتاریخیت ایسے ادبی ہتھیاروں کو تاریخ نگاری کے سیاسی اثرات کے طور پر دیکھتی ہے، اور ان سے یہ سوال کرتی ہے کہ کون سا بیانیہ غالب ہے، اور کون سا بیانیہ دبایا جا رہا ہے؟
اردو ادب میں نوتاریخیت کے اطلاق سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نسیم حجازی کے ناول صرف ماضی کی رومانوی تصویر نہیں بلکہ وہ حال کے لیے ایک نظریاتی خاکہ بھی ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستانی قوم پرستی، اسلامی شناخت، اور نظریہ پاکستان جیسے تصورات کو فروغ دیتی ہیں۔ چنانچہ ان کا ادب تاریخی کم اور نظریاتی زیادہ ہو جاتا ہے، جو نوتاریخیت کے مطابق تاریخ کے بیانیے کو طاقت کے ایک آلے کے طور پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
نسیم حجازی کی تاریخی ناول نگاری نوتاریخیت کے تنقیدی نظریے کی روشنی میں محض ماضی کا تجزیہ نہیں بلکہ حال کا عکاس، اور مستقبل کے لیے رہنمائی کا دعویٰ کرنے والا فکری منصوبہ نظر آتی ہے۔ ان کی تحریریں اس بات کی مثال ہیں کہ تاریخ کو ادبی پیرائے میں بیان کرتے ہوئے کیسے مخصوص نظریات، شناختیں، اور سیاسی و سماجی ترجیحات ابھاری جاتی ہیں۔ نوتاریخیت کے زاویے سے ان کے ناول اردو ادب میں نہ صرف ادبی دلچسپی کے حامل ہیں، بلکہ وہ طاقت، بیانیے اور ثقافت کے باہمی رشتوں کو سمجھنے کے لیے بھی اہم مطالعہ فراہم کرتے ہیں۔