کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

مرزا دبیر سوانح و کلام

مرزا سلامت علی دبیر اردو مرثیہ گوئی کے اُس درخشاں باب کا نام ہیں جو نہ صرف اپنی وسعت، فنی مہارت، اور جذباتی تاثیر کے اعتبار سے منفرد ہے بلکہ اردو ادب میں کلاسیکی تہذیب، شعری صناعی اور فکری عمق کا مظہر بھی ہے۔ ان کا شمار اردو کے ان شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف کسی ایک صنفِ سخن کو کمال تک پہنچایا بلکہ اُس صنف کو ایک نیا شعور، ایک نیا اسلوب اور ایک نئی جمالیات عطا کی۔ دبیر کی شخصیت اردو مرثیہ نگاری کی روایت میں ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، اور ان کا نام میر انیس کے ساتھ ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہوتا، کیونکہ انیس اور دبیر کی شاعری اردو مرثیہ کی دو ممتاز اور ہم رتبہ قوسیں ہیں جن کے درمیان تخلیقی اور فکری ارتقا کی ایک شاندار داستان موجود ہے۔

مرزا سلامت علی دبیر 1803ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا غلام حسین بھی اہلِ علم و فن میں شمار ہوتے تھے۔ دبیر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد اور دہلی کے جید اساتذہ سے حاصل کی۔ عربی، فارسی، فقہ، منطق اور شعر و ادب میں ان کی علمی بنیاد مضبوط تھی۔ نوجوانی ہی میں ان کا رجحان شاعری کی طرف ہو گیا۔ اگرچہ ابتدا میں وہ غزل اور قصیدہ کے میدان میں طبع آزمائی کرتے رہے، مگر جلد ہی ان کی توجہ مرثیہ گوئی کی طرف مبذول ہوئی، جو بعد ازاں ان کی شناخت اور شہرت کی بنیاد بنی۔

دہلی کے بعد دبیر نے لکھنؤ کو اپنا مسکن بنایا۔ لکھنؤ اُس وقت شیعہ تہذیب، عزاداری، اور مرثیہ نگاری کا مرکز بن چکا تھا۔ یہیں مرزا انیس کی موجودگی بھی دبیر کے لیے ایک چیلنج اور محرک بنی۔ اگرچہ دبیر اور انیس کے درمیان باضابطہ رقابت نہ تھی، لیکن ادبی دنیا نے دونوں کو ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر دیکھا۔ دونوں نے مرثیے کے فن کو اوجِ کمال پر پہنچایا اور اردو شاعری کو ایک نیا وقار عطا کیا۔

مرزا دبیر کا انتقال 1874ء میں لکھنؤ میں ہوا۔ ان کی آخری آرام گاہ وہیں واقع ہے، جہاں آج بھی ان کے عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔

مرزا دبیر نے اپنی شاعری کو مرثیہ کے لیے وقف کر دیا، اور یہی وہ صنف ہے جس میں انہوں نے اپنی تخلیقی توانائیوں کا بھرپور استعمال کیا۔ ان کا کلام مجموعی طور پر کلاسیکی روایت، فنّی چابکدستی، اور محاکاتِ جذبات کا مظہر ہے۔ دبیر کا مرثیہ نہ صرف کربلا کے واقعے کا بیان ہے بلکہ ایک مکمل تہذیبی دستاویز بھی ہے، جس میں ہندوستانی اسلامی معاشرت، مذہبی عقائد، اور ادبی جمالیات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔

مرثیہ دبیر کے ہاں صرف ماتم یا رنج و غم کا اظہار نہیں، بلکہ اس میں مقصدیت، روحانیت، اور اخلاقی تعلیم بھی پائی جاتی ہے۔ وہ امام حسینؑ اور ان کے رفقاء کی قربانی کو ایک مثالی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس میں صبر، وفا، استقامت، اور حق گوئی جیسے اوصاف کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ دبیر نے مرثیے کو چھے مصرعوں والی بندش (مسدس) کی صورت میں ڈھالا، اور اس میں قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور غزل کے فنی محاسن کو نہایت خوبصورتی سے سمویا۔

مرزا دبیر کا اسلوب پرجوش، خطیبانہ، اور فنّی نزاکتوں سے بھرپور ہے۔ ان کے اشعار میں جذبات کی شدت، منظرنگاری کی وسعت، اور زبان و بیان کی صفائی نمایاں ہوتی ہے۔ وہ مرثیے میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ ایک فطری روانی اور غنائیت بھی پیدا کرتے ہیں۔ دبیر کے ہاں زبان کا استعمال نہایت محتاط اور ادبی شعور سے معمور ہوتا ہے۔ وہ کلاسیکی فارسی و عربی الفاظ کا استعمال اس خوبی سے کرتے ہیں کہ نہ صرف فصاحت پیدا ہوتی ہے بلکہ شعر کا تہذیبی وقار بھی قائم رہتا ہے۔

دبیر کے مرثیوں میں منظرنگاری کا فن اپنی انتہا کو پہنچا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ وہ کربلا کے میدان، شہادت کے مناظر، خیموں کی فضا، خواتین کی بے بسی، اور اہلِ بیتؑ کے صبر و استقلال کو اس طور پر بیان کرتے ہیں کہ قاری یا سامع خود کو اس منظر کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ان کا فن سامع کے دل پر اثر ڈالنے کی پوری قوت رکھتا ہے۔

مرزا دبیر کے مرثیے محض مذہبی یا ماتمی انجمنوں تک محدود نہیں رہے بلکہ اردو ادب کے فکری، فنی اور جمالیاتی دائرے میں بھی ان کی حیثیت تسلیم کی گئی۔ ان کی شاعری کو بعد کے شعرا نے نہ صرف سراہا بلکہ کئی مقامات پر ان کے طرزِ بیان اور فنی تقاضوں کو اپنانے کی کوشش کی۔ دبیر کی شاعری نے اردو زبان میں ایک ایسا شعری لہجہ متعارف کروایا جس میں رثائیت، خطابت، اور جمالیات کا امتزاج پایا جاتا ہے۔

انیس کے مقابل دبیر کے ہاں منطقی ربط، خطیبانہ اثر، اور منظر کی شدت زیادہ ہے، جب کہ انیس جذباتی پہلو اور کردار کی نفسیاتی کشمکش کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مگر دبیر کے ہاں بھی جذبات کی شدت کسی طور کم نہیں، بلکہ وہ منظر کو ایسا بنا دیتے ہیں کہ سننے والا بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

دبیر کی شاعری کے نمونے اس کے فکری وقار اور فنّی بلندی کی دلیل ہیں۔ ذیل میں چند اشعار بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں:

عجب قیامت کا دن تھا وہ کربلا کا دن
کہ خوں سے ہنسنے لگا تھا چمن، صبا کا دن

کسی کا لاشہ زمیں پہ، کسی کا تیغ تلے
کسی کا حلق بریدہ، کسی کی صدا کا دن

یہ اشعار صرف واقعاتی بیان نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت کو فکری تمثیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں، اور دبیر کی منظر آفرینی، جذبات نگاری اور لسانی چابکدستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

مرزا سلامت علی دبیر اردو ادب کا وہ روشن مینار ہیں جنہوں نے مرثیے کی صنف کو فن، فکر، تہذیب اور مذہب کا جامع مظہر بنا دیا۔ ان کی شاعری نے نہ صرف اہلِ بیتؑ کی قربانیوں کو زندہ رکھا بلکہ اردو زبان کو وہ وسعت اور شان عطا کی جس پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ دبیر کا کلام ایک طرف ملتِ اسلامیہ کی روحانی علامت ہے، تو دوسری طرف اردو ادب کے فنی ارتقا کی تابناک مثال۔ آج بھی ان کے مرثیے محرم کے دنوں میں ماتمی انجمنوں اور ادب کے حلقوں میں یکساں طور پر پڑھے اور سنے جاتے ہیں، اور ان کا نام ہر اس فرد کے دل میں زندہ ہے جو ادب میں سچائی، صداقت اور تاثیر کا طالب ہے۔

مرزا دبیر کے مرثیے نہ صرف غمِ حسینؑ کا بیان ہیں بلکہ وہ اردو زبان کے شعری فن کی بلند ترین سطح پر بھی ایک زندہ مثال ہیں۔ ان کا مقام اردو ادب کی تاریخ میں وہی ہے جو کلاسیکی یونانی المیوں میں سوفوکلیز یا یورپ کے ادب میں شیکسپیئر کو حاصل ہے۔ ان کے مرثیوں کا مطالعہ نہ صرف ایک ادبی تجربہ ہے بلکہ روحانی تطہیر، فکری بیداری اور جذباتی بالیدگی کا بھی ذریعہ ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں