کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو صحافت پر مولانا ظفر علی خان کے اثرات

مولانا ظفر علی خان اردو صحافت کی تاریخ کا ایک اہم اور نمایاں نام ہیں جنہیں “بابائے صحافت” بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے صحافتی اثرات اردو صحافت کے مختلف پہلوؤں میں دیکھے جا سکتے ہیں، جنہوں نے نہ صرف اردو زبان کو فروغ دیا بلکہ آزادی کی تحریک اور قوم پرستی کو بھی صحافت کے ذریعے مضبوط کیا۔مولانا ظفر علی خان نے اپنی صحافت کو قومی اور سیاسی بیداری کا ذریعہ بنایا۔ ان کے اخبار “زمیندار” نے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو اجاگر کیا اور تحریکِ خلافت، تحریکِ پاکستان، اور دیگر آزادی کی تحریکات میں اہم کردار ادا کیا۔  انہوں نے صحافت کو صرف خبر رسانی کا ذریعہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے جدوجہدِ آزادی کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم بنایا۔ ظفر علی خان نے اپنی صحافت کے ذریعے حق اور سچائی کی آواز بلند کی۔ انہوں نے برطانوی راج کی ناانصافیوں، ہندو مسلم اتحاد کے مسائل، اور مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف کھل کر لکھا۔ ان کی بے باک تحریروں کی وجہ سے انہیں کئی بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں، لیکن انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

اردو صحافت نہ صرف اردو زبان کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنی بلکہ برصغیر کی سیاسی، سماجی اور فکری تاریخ میں ایک انقلابی اور شعور افروز کردار ادا کرنے میں بھی نمایاں رہی۔ اردو صحافت کا آغاز اُنیسویں صدی کے اوائل میں ہوا، جب ’’جامِ جہاں نما‘‘ اور ’’سیدالاخبار‘‘ جیسے ابتدائی اخبارات منظرِ عام پر آئے، لیکن وقت کے ساتھ اردو صحافت محض خبر رسانی کا ذریعہ نہیں رہی بلکہ اس نے آزادیٔ اظہار، قومی بیداری، مذہبی رواداری، تعلیمی اصلاحات، اور سماجی شعور کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ صحافت عوام کی آواز بنی، نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کا ہتھیار بنی، اور اردو زبان کو ایک تخلیقی، موثر اور بامعنی اظہار کی صورت فراہم کی۔ اس شعبے کو جن شخصیات نے نظریاتی، فکری اور فنی بنیادوں پر استوار کیا، ان میں مولانا ظفر علی خان کا نام نہایت نمایاں ہے، جنہیں بجا طور پر اردو صحافت کا معمار اور مجاہدِ صحافت کہا جاتا ہے۔

 اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری اور صحافت کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔

ظفر علی خان 1873ء میں ضلع وزیر آباد (موجودہ پاکستان) کے گاؤں کوت مہر سنگھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سراج الدین احمد خان بھی ایک معروف شاعر اور عالم تھے۔ ظفر علی خان نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔

ظفر علی خان نے اپنے والد کے اخبار اخبارِ پنجاب کی ادارت سنبھالی، لیکن ان کی صحافتی شہرت کا اصل آغاز زمیندار اخبار سے ہوا، جو انہوں نے 1903ء میں لاہور سے جاری کیا۔ یہ اخبار تحریک آزادی کا اہم ترجمان بنا اور انگریز حکومت کے خلاف مضامین کی وجہ سے کئی بار بند کیا گیا۔

ظفر علی خان کو شاعرِ اسلام اور شاعرِ مشرق کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں جذبۂ حب الوطنی، اسلامی حمیت اور آزادی کی جدوجہد نمایاں ہے۔ ان کے مشہور کلام میں خاکِ وطن”، “بانگِ درا”، “تختِ لندن اور جہاد شامل ہیں۔ ان کا طرزِ تحریر جوشیلا، انقلابی اور پرجوش تھا۔

  • وہ مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔
  • تحریک خلافت اور تحریک آزادی میں ان کا کردار اہم تھا۔
  • انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف زبردست تحریری و تقریری جہاد کیا۔

27 نومبر 1956ء کو لاہور میں انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔ ان کی وفات پر پاکستان میں قومی سوگ کا اعلان کیا گیا۔

مولانا ظفر علی خان کو پاکستان میں قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کی شاعری اور صحافت نے نہ صرف آزادی کی تحریک کو تقویت دی بلکہ اردو ادب کو بھی ایک نئی جہت عطا کی۔ ان کا نام پاکستان کی ادبی و سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جاتا رہے گا۔

مولانا ظفر علی خان (1873–1956) ایک عظیم صحافی، شاعر، ادیب، سیاست دان اور قوم پرست رہنما تھے جنہوں نے اردو صحافت کو محض خبروں کی اشاعت تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے قومی تحریک، سیاسی مزاحمت، اور فکری بیداری کا طاقتور ذریعہ بنا دیا۔ وہ روزنامہ زمیندار کے مدیر تھے، جو ان کے فکری بیانیے کا عملی مظہر تھا۔ یہ اخبار بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں پنجاب اور ہندوستان بھر میں مسلمانوں کی آواز، ان کی سیاسی امنگوں، اور انگریز سامراج کے خلاف احتجاج کا ترجمان بن گیا۔ مولانا ظفر علی خان نے زمیندار کے ذریعے نہ صرف عوام کو بیدار کیا بلکہ برطانوی حکومت کے خلاف جرأت مندانہ مضامین اور شاعری سے صحافت کو مزاحمت کی ایک نئی جہت عطا کی۔

ظفر علی خان کا سب سے بڑا اثر اردو صحافت پر ان کی بے باکی، حق گوئی، قومی غیرت، اور دینی و تہذیبی شعور کے ذریعے سامنے آتا ہے۔ انہوں نے صحافت کو محض روزمرہ کی سیاست سے جوڑنے کے بجائے اسے اصولوں، نظریات اور اجتماعی مفادات کا محافظ بنایا۔ ان کی تحریروں میں استعمار کے خلاف نفرت، مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی فکر، اور ملتِ اسلامیہ کی عظمت کا خواب نمایاں ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو زبان میں ایسی صحافتی نثر متعارف کروائی جو سادہ، رواں، موثر اور جذبات سے بھرپور تھی، جس نے عوام الناس کو براہ راست متاثر کیا۔ ان کی شاعری جو اکثر ’’زمیندار‘‘ میں شائع ہوتی، عوامی تحریکوں میں انقلابی نعرے کی حیثیت رکھتی تھی، جیسے:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے،
اٹھ کہ وقتِ قیام آیا ہے۔

صحافتی سطح پر مولانا ظفر علی خان نے اس بات کو راسخ کیا کہ صحافت صرف واقعات کی رپورٹنگ نہیں بلکہ ایک فکری، تہذیبی، اور نظریاتی جدوجہد ہے۔ ان کے اثرات آج بھی اردو صحافت میں محسوس کیے جا سکتے ہیں، خاص طور پر جب بات اصولی صحافت، نظریاتی وابستگی، اور قومی خدمت کی ہو۔ انہوں نے ایسے صحافیوں کی نسل پیدا کی جو صرف قلمکار نہ تھے بلکہ قوم کے رہنما، دانشور اور تبدیلی کے نقیب تھے۔ آزادی کے بعد بھی اردو صحافت کی اخلاقی بنیادوں، زبان و اسلوب کی شائستگی، اور نظریاتی وابستگی میں جو کچھ باقی بچا ہے، وہ اسی ورثے کا تسلسل ہے جس کی بنیاد مولانا ظفر علی خان نے رکھی۔

یوں مولانا ظفر علی خان کا اردو صحافت پر اثر نہ صرف تاریخی ہے بلکہ فکری، تہذیبی، ادبی اور نظریاتی سطح پر بھی گہرا ہے۔ ان کی صحافتی جدوجہد اردو زبان کی ترقی، مسلمانوں کے سیاسی شعور، اور آزادی کی تحریک کا لازمی حصہ رہی۔ وہ صرف صحافی نہیں بلکہ اردو صحافت کے ایک نظریے، ایک تحریک اور ایک جذبے کا نام تھے، جن کا اثر آج بھی ان تمام افراد اور اداروں پر محسوس ہوتا ہے جو صحافت کو محض پیشہ نہیں بلکہ مشن سمجھتے ہیں۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں