تانیثیت (Feminism) سے مراد وہ فکری، سماجی، ادبی اور نظریاتی تحریک ہے جس کا مقصد عورت کو مرد کے برابر انسانی، معاشی، قانونی، سیاسی اور ادبی سطح پر حقوق دلانا ہے، اور پدرسری (patriarchal) نظام کے تحت صدیوں سے عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافی، استحصال اور امتیازی سلوک کو بے نقاب کر کے اس کے خلاف شعور اجاگر کرنا ہے۔ تانیثیت محض عورت کی برتری یا مرد دشمنی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک نظریاتی اور عملی جدو جہد ہے جو مساوات، انصاف، آزادیٔ اظہار، اور صنفی شناخت کو تسلیم کرانے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس تحریک کا آغاز مغرب میں انیسویں صدی میں ہوا جب عورتوں نے ووٹ، تعلیم، جائیداد اور روزگار کے مساوی حقوق کے لیے آواز بلند کی، لیکن یہ تحریک جلد ہی پوری دنیا میں پھیل گئی، اور ہر تہذیب و ثقافت میں اپنی مخصوص شکل اختیار کر گئی۔
اردو ادب میں تانیثی فکر نے خاص طور پر بیسویں صدی کے نصف آخر میں ایک مضبوط ادبی اور فکری جہت کے طور پر جنم لیا۔ قرۃالعین حیدر، عصمت چغتائی، حجاب امتیاز علی، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، ثمینہ راجہ اور دیگر خواتین لکھاریوں نے اپنے افسانوں، ناولوں اور نظموں کے ذریعے عورت کے وجود، شناخت، جذبات، خواہشات اور اس کی داخلی کائنات کو ادبی منظرنامے کا حصہ بنایا۔ تانیثیت عورت کو محض مظلوم، مجبور یا صنفِ نازک کے طور پر پیش نہیں کرتی بلکہ اسے ایک بااختیار، باشعور اور فعال انسان کے طور پر دیکھتی ہے جو اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تانیثی تنقید ادب کا وہ زاویہ نگاہ ہے جو ادبی متون میں صنفی امتیاز، عورت کی نمائندگی، اس کے کردار کی تشکیل اور اس پر مردانہ بیانیے کے اثرات کا تجزیہ کرتی ہے۔ اس کے ذریعے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا ادب میں عورت کو اس کی اصل شناخت اور ممکنات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے یا صرف مردانہ نظر سے متعین ایک کردار کی حیثیت سے؟ یوں تانیثیت نہ صرف ایک سماجی تحریک ہے بلکہ ایک فکری اور ادبی رویہ بھی ہے جو انصاف، برابری اور شعور کی تلاش میں مسلسل متحرک ہے۔
تانیثی اردو ناولوں میں سماجی امور و مسائل کی عکاسی اردو فکشن کا نہایت اہم اور قابلِ توجہ پہلو ہے، جو نہ صرف خواتین کے مسائل اور تجربات کو بیان کرتا ہے بلکہ ایک وسیع تر سماجی و تہذیبی منظرنامے کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اردو ناول، جو ابتدا میں مرد مصنفین کے ہاتھوں تشکیل پایا، رفتہ رفتہ خواتین کی آواز، ان کے جذبات، ان کی سوچ اور ان کے مسائل کا ترجمان بننے لگا۔ بیسویں صدی کے وسط سے لے کر اکیسویں صدی تک تانیثی ناول نگاری نے جس فکری و فنی پختگی اور سماجی آگہی کا اظہار کیا، وہ نہ صرف صنفی انصاف کی کوشش تھی بلکہ معاشرے کے ہر اس گوشے کی تفہیم بھی تھی جو عورت کی ذات سے جڑا ہے۔
تانیثی اردو ناولوں میں سماجی امور کی عکاسی مختلف سطحوں پر ہوتی ہے: سب سے پہلے عورت کی شناخت کا بحران، اس کی شخصیت کی نفی، گھریلو دائرے میں اس کی محدودیت، تعلیم کی کمی، شادی کے دباؤ، وراثتی حق سے محرومی، جنسی امتیاز، اور تشدد جیسے مسائل کو موضوع بنایا گیا۔ قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم، بانو قدسیہ، خدیجہ مستور، جمیلہ ہاشمی، ناہید قدسیہ، نور الہدیٰ شاہ، اور ثمینہ راجہ جیسی ناول نگاروں نے نہ صرف عورت کی حیثیت کو موضوع بنایا بلکہ اس کے گرد بسنے والے پورے معاشرتی نظام کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا۔
عصمت چغتائی کے ناولوں اور افسانوں میں طبقاتی جبر، جنسی گھٹن، اور گھریلو منافقت کی بے لاگ تصویر کشی ملتی ہے۔ ان کے کردار محض مظلوم عورتیں نہیں بلکہ بولنے، سوچنے اور بغاوت کرنے والی باشعور ہستیاں ہیں۔ ان کا ناول “ٹیڑھی لکیر” ایک داخلی خودکلامی اور سماجی بیانیے کا حسین امتزاج ہے، جس میں عورت اپنے وجود، خواہشات اور معاشرتی جبر کے خلاف مسلسل سوال اٹھاتی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے “آگ کا دریا” میں عورت کو تاریخ، تہذیب اور شناخت کے تناظر میں پیش کیا، جہاں اس کی حیثیت محض گھریلو کردار تک محدود نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی وجود کے طور پر ابھرتی ہے۔
خدیجہ مستور کا ناول “آنگن” تقسیم ہند کے پس منظر میں عورت کی قربانی، داخلی استقامت، اور سماجی تانے بانے میں اس کے مقام کو نہایت حساس انداز میں بیان کرتا ہے۔ اس ناول میں سیاسی شعور، قومی شناخت، اور خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ جیسے عناصر عورت کے تجربے کے ذریعے ابھرتے ہیں۔ بانو قدسیہ کے ناولوں میں عورت کا کردار زیادہ تر روایتی مگر گہرے روحانی اور اخلاقی تجربے سے مزین ہوتا ہے، جہاں وہ نہ صرف صبر اور ایثار کی علامت ہوتی ہے بلکہ ایک فکری قوت بھی بن کر سامنے آتی ہے، جیسا کہ ان کے ناول “راجہ گدھ” میں دکھائی دیتا ہے۔
تانیثی اردو ناولوں میں سماجی مسائل کی عکاسی صرف گھریلو دائرے تک محدود نہیں بلکہ تعلیمی اداروں، عدالتوں، دفاتر، ہسپتالوں اور سیاست جیسے اداروں میں عورت کے تجربے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ نور الہدیٰ شاہ اور ثمینہ راجہ جیسے ادیبوں نے عورت کے ساتھ ہونے والے معاشرتی، جذباتی اور جسمانی استحصال کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری کو سماجی ڈھانچے میں عورت کی بے بسی اور قوتِ مزاحمت دونوں کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔
مابعد نو آبادیاتی تناظر میں لکھی جانے والی تانیثی تحریریں عورت کی ذات کو ایک استعاراتی جہت عطا کرتی ہیں، جہاں عورت نہ صرف جنس، صنف یا کردار ہے بلکہ ایک علامت ہے اس تہذیب کی جو زوال، شکست اور تشکیل نو کے عمل سے گزر رہی ہے۔ ان ناولوں میں عورت کے ذریعے پورے معاشرے کا اخلاقی، سیاسی اور تہذیبی بحران بھی زیرِ بحث آتا ہے۔
مزید برآں، تانیثی ناول نگاری نے نہ صرف عورت کی مظلومیت کو موضوع بنایا بلکہ اس کی شناخت، اختیار، خواہش اور آزادی جیسے موضوعات کو بھی مرکزی حیثیت دی۔ ان ناولوں میں عورت محض دکھ اٹھانے والی ہستی نہیں بلکہ ایک فکری وجود ہے جو معاشرے کی ساخت پر سوال بھی اٹھاتی ہے، اور نئی راہوں کا تعین بھی کرتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ تانیثی اردو ناولوں میں سماجی مسائل کی عکاسی صرف عورت کی ذات تک محدود نہیں بلکہ ایک وسیع تر معاشرتی بیانیہ ہے، جو خاندانی، سیاسی، مذہبی اور تہذیبی سطحوں پر معاشرتی شعور کی تشکیل کا باعث بنتا ہے۔ یہ ناول اردو ادب میں نہ صرف صنفی حساسیت کے فروغ کا ذریعہ ہیں بلکہ ایک ایسے فکری عمل کی نمائندگی کرتے ہیں جو مساوات، انصاف، اور شعورِ ذات کو ادب کے ذریعے معاشرے تک پہنچانے کا مقدس فریضہ انجام دیتا ہے۔