جیلانی بانو کے ناولوں کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ ان کی ناول نگاری نہ صرف فکری گہرائی اور نسائی شعور کی نمائندہ ہے بلکہ وہ انسانی رشتوں، جذبات، معاشرتی جبر اور تہذیبی تبدیلیوں کو بھی نہایت باریک بینی سے اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے ناولوں میں کہانی محض واقعات کا سلسلہ نہیں بلکہ ایک فکری اور جذباتی سفر ہوتا ہے، جو قاری کو کسی مخصوص مسئلے کی پیچیدگیوں میں لے جا کر اس پر سوچنے اور سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کے ناولوں میں کردار زندگی سے قریب تر، مکمل اور پیچیدہ ہوتے ہیں، جو اپنے ماحول، نفسیات اور تجربات کے زیرِ اثر ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔
ان کا سب سے معروف ناول “بارش، خاک اور گلاب” ہے، جو اردو ناول نگاری میں نسائی شعور کے اظہار کی ایک اہم مثال سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول میں جیلانی بانو نے عورت کے داخلی جذبات، اس کی محبت، محرومی، شناخت کے سوال، اور سماج سے ٹکراؤ کو فکری اور فنی مہارت سے پیش کیا ہے۔ ناول کی مرکزی کردار نہ صرف اپنے جذباتی تجربات سے گزرتی ہے بلکہ وہ معاشرتی اقدار، مرد اساس نظام، اور روایتی اخلاقیات سے بھی سوال کرتی ہے۔ اس ناول کا اسلوب علامتوں سے پاک اور بیانیہ شفاف ہے، جو قاری کو براہِ راست کردار کی نفسیات سے جوڑتا ہے۔
ان کے دیگر ناولوں میں بھی سماجی و خاندانی نظام کے اندر موجود ناہمواریوں، عورت کی ذات اور اس کی آزادی، روایات اور جدید خیالات کی کشمکش، اور طبقاتی تضادات جیسے موضوعات کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے۔ جیلانی بانو کے ہاں ناول کے فنی تقاضے، مثلاً پلاٹ، کردار سازی، مکالمہ نگاری، منظر نگاری اور بیانیہ ترتیب بڑی حد تک متوازن اور مؤثر نظر آتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں جذباتیت موجود ہے لیکن وہ سطحی نہیں بلکہ گہرے فکری اور سماجی مسائل سے جڑی ہوئی ہے۔
ان کی ناول نگاری کو اس لحاظ سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے نسائی وجود کو ایک مکمل، سوچنے سمجھنے والی، فیصلہ کرنے والی اور مزاحمت کرنے والی ہستی کے طور پر دکھایا ہے۔ ان کا بیانیہ کسی ایک صنف تک محدود نہیں بلکہ وہ پورے انسانی سماج، اس کے زوال پذیر اقدار، اور بدلتے ہوئے تہذیبی منظرنامے کا عکاس ہے۔ ان کے ناول اردو فکشن میں ایک بامعنی اضافہ ہیں، جو نہ صرف ادبی لحاظ سے قاری کو متاثر کرتے ہیں بلکہ فکری طور پر بھی اسے جھنجھوڑتے ہیں۔
مجموعی طور پر جیلانی بانو کے ناول اردو ادب میں نہ صرف نسائی شعور کی علامت ہیں بلکہ وہ انسانی احساسات، سماجی شعور، اور فنی مہارت کا امتزاج بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کے ناول ایک زندہ سماج کی متحرک تصویریں ہیں، جو وقت کے ساتھ کبھی فرسودہ نہیں ہوتیں بلکہ ہر دور میں ایک نیا تناظر فراہم کرتی ہیں۔