کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

پاکستان میں مروجہ عدالتی زبان کا سماجی استعمال، مسائل و تجاویز

پاکستان میں مروجہ عدالتی زبان کا سماجی استعمال ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس کا براہِ راست تعلق عوامی فہم، قانونی رسائی، اور عدالتی شفافیت سے ہے۔ عدالتی نظام میں آج بھی بڑی حد تک انگریزی زبان کا استعمال غالب ہے، خاص طور پر فیصلوں، عدالتی احکامات، اور وکالت کی کارروائیوں میں، جس کی وجہ سے عام شہری نہ صرف قانونی عمل کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے بلکہ اپنی قانونی حیثیت اور حقوق کے شعور سے بھی محروم رہتا ہے۔ اگرچہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 251 کے تحت اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کی ہدایت موجود ہے، مگر عدالتی سطح پر اس پر مکمل عملدرآمد نہ ہو سکا، جس کے نتیجے میں ایک لسانی و قانونی خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اس خلا کا سب سے بڑا اثر نچلے طبقات اور غیر تعلیم یافتہ عوام پر پڑتا ہے، جو عدالتوں میں پیش ہونے کے باوجود قانونی کارروائی کی نوعیت اور نتائج سے لاعلم رہتے ہیں۔ وکلاء اور عدالتی عملے کی تربیت بھی اسی لسانی ماحول میں ہوئی ہوتی ہے، جس میں انگریزی کو مہارت اور وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے، جبکہ اردو کو ایک غیر رسمی یا عوامی زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف قانونی عمل میں تاخیر ہوتی ہے بلکہ عدالتی اعتماد اور رسائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ مسائل میں شامل ہیں: قانونی اصطلاحات کا پیچیدہ انگریزی میں ہونا، عدالتوں کے فیصلوں کا اردو ترجمہ نہ ہونا، عام شہریوں کے لیے قانونی مشوروں کی زبان کا ناقابل فہم ہونا، اور وکلاء کے لیے اردو میں موثر دلائل دینے کی تربیت کی کمی۔ ان مسائل کے حل کے لیے چند تجاویز یہ ہو سکتی ہیں: (1) تمام عدالتی فیصلوں کے ساتھ اردو ترجمہ لازمی قرار دیا جائے، (2) وکلاء اور جج صاحبان کے لیے اردو قانونی زبان کی تربیت کا اہتمام کیا جائے، (3) نچلی عدالتوں میں اردو کو مقدماتی کارروائی کی لازمی زبان بنایا جائے، (4) قانونی نصاب میں اردو قانون نویسی کو شامل کیا جائے، اور (5) عوامی سطح پر قانونی شعور کی مہمات اردو زبان میں چلائی جائیں تاکہ عوام عدالتی زبان کو سمجھ سکیں۔ اس طرح عدالتی نظام نہ صرف زیادہ شفاف اور قابلِ فہم ہو سکے گا بلکہ شہریوں کا اعتماد اور قانونی خود اختیاری بھی فروغ پائے گی۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں