قیام پاکستان کے بعد اردو ادب میں بھارت کے سفرنامے نہایت اہم ادبی اور تہذیبی دستاویزات کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میں تقسیم کے بعد کی سیاسی، سماجی، اور تہذیبی صورتِ حال کا عمیق مشاہدہ ملتا ہے۔ ان سفرناموں میں بیشتر پاکستانی مصنفین نے بھارت کے مختلف شہروں، مقاماتِ مقدسہ، ادبی مراکز، اور ثقافتی میلوں کے مشاہدات کو نہایت باریک بینی سے قلمبند کیا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ، ڈاکٹر سلیم اختر، قمر رئیس، اور دیگر سفرنامہ نگاروں نے بھارت کی گنگا جمنی تہذیب، مذہبی تنوع، اور اردو زبان کی بقا کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ان سفرناموں میں پاکستان اور بھارت کے مشترکہ ماضی، تہذیبی رشتے، اور عوامی جذبات کی جھلک نمایاں ہے، جو اکثر مصنفین کو ایک درد انگیز نوستالجیا سے دوچار کرتی ہے۔ ان سفرناموں میں نہ صرف تاریخی مقامات اور علمی اداروں کا ذکر ملتا ہے بلکہ وہاں کے موجودہ معاشرتی رویوں اور ادبی فضا کا بھی تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ بعض مصنفین نے ان سفرناموں میں بھارتی مسلمانوں کی حالت، اردو زبان کی حالتِ زار، اور تہذیبی تنہائی جیسے موضوعات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اس طرح قیام پاکستان کے بعد لکھے گئے یہ سفرنامے صرف جغرافیائی سیر کی روداد نہیں بلکہ ایک فکری مکالمہ، تہذیبی بازگشت اور مشترکہ ماضی کی بازیافت کی کوشش بھی ہیں، جو اردو ادب میں ان کا مقام مزید مستحکم کرتا ہے۔