پاکستانی اسفار پر مبنی اردو سفرنامے نہ صرف جغرافیائی سفر کی روداد ہیں بلکہ یہ ادبی، تہذیبی اور فکری اعتبار سے اردو ادب کا اہم حصہ شمار ہوتے ہیں۔ ان سفرناموں میں پاکستان کے مختلف علاقوں، ثقافتوں، زبانوں، رسم و رواج، اور مقامی طرزِ زندگی کا عمیق مشاہدہ ملتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، اور بانو قدسیہ جیسے ادیبوں نے اپنے اسفار کے ذریعے ان خطوں کی مخصوص شناخت اور تہذیبی رنگوں کو بیان کیا جو عام قاری کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان سفرناموں میں صرف مقامات کی سیر نہیں بلکہ انسانی رویوں، معاشرتی ناہمواریوں، قومی یکجہتی اور فطرت سے انسان کے تعلق جیسے موضوعات پر گہرا اظہار بھی ملتا ہے۔ سفرنامہ نگاروں نے ذاتی تجربات، مشاہدات، اور داخلی کیفیات کو تخلیقی پیرائے میں ڈھال کر اسے ادب کی ایک دلکش صنف بنا دیا ہے۔ تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستانی اردو سفرنامے بیانیہ تکنیک، کردار نگاری، منظر نگاری، اور اسلوب کی جدت کے حوالے سے بھی نمایاں ہیں۔ ان میں طنز و مزاح، سنجیدگی، فکری تجزیہ، اور بعض اوقات سیاسی و سماجی شعور کی جھلک بھی نظر آتی ہے، جو ان سفرناموں کو محض سیاحتی تحریروں کے بجائے علمی اور ادبی مطالعے کے قابل بناتی ہے۔ اس طرح یہ سفرنامے اردو ادب میں ایک ایسی جہت کا اضافہ کرتے ہیں جو قومی شناخت، مقامی تہذیب، اور فکری تنوع کی عکاس ہے۔