مستنصر حسین تارڑ اردو ادب میں سفرنامہ نگاری کے ایک منفرد اور معتبر نام ہیں، جنہوں نے اپنے سفرناموں میں محض مقامات کی سیاحت کو بیان کرنے کے بجائے ان علاقوں کی تاریخ، ثقافت، جغرافیہ اور انسانی زندگی کی گہرائیوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ خاص طور پر ان کے شمالی علاقہ جات کے سفرنامے، جیسے “یارانِ کافلہ”، “نکلے تیری تلاش میں”، “اندلس میں اجنبی”، “ہنزہ داستان” اور دیگر، ایک طرف فطری حسن کی رعنائیوں کو بیان کرتے ہیں تو دوسری طرف تاریخ، تہذیب اور مقامی باشندوں کی طرزِ زندگی پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سفرنامے محض ذاتی مشاہدات پر مبنی نہیں بلکہ تاریخی حوالوں، تہذیبی شناخت، اور جغرافیائی حالات کا بھی عمیق جائزہ لیتے ہیں۔ وہ شمالی پاکستان کے برف پوش پہاڑوں، سبز وادیوں، قدیم ثقافتوں، بدھ مت کے آثار، اور مقامی لوگوں کی روایات کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری خود کو ان مقامات پر محسوس کرنے لگتا ہے۔ ان کی تحریر میں منظرنگاری، تاریخی تجزیہ، کرداروں کی گہرائی، اور ایک فلسفیانہ انداز پایا جاتا ہے جو ان کے سفرناموں کو محض سیر و سیاحت کی داستانوں سے بلند کر کے فکری و تہذیبی مطالعے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ان کے بیانیے میں شاعرانہ تخیل اور حقیقت پسندی کا امتزاج نظر آتا ہے، جو اردو سفرنامہ نگاری کی روایت میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ان کے سفرنامے جہاں قارئین کو شمالی علاقہ جات کی خوبصورتی سے روشناس کراتے ہیں، وہیں ان علاقوں کی تہذیب، تاریخی اہمیت اور ثقافتی ورثے کے حوالے سے بھی قاری کے لیے ایک علمی اور فکری تجربہ بن جاتے ہیں۔