منٹو کے افسانے بیسویں صدی کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں عورت کے کردار کو بڑی جرات، حقیقت پسندی اور گہرے مشاہدے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ وہ عورت کو محض روایتی یا آئیڈیلائزڈ انداز میں پیش کرنے کے بجائے، اس کے حقیقی سماجی، نفسیاتی اور جذباتی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، خاص طور پر برصغیر کی تقسیم، سماجی جبر، طبقاتی استحصال اور مردانہ بالادستی جیسے عوامل کے تناظر میں۔ منٹو کے افسانے اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے سیاسی اور سماجی انتشار نے عورت کو سب سے زیادہ متاثر کیا، خاص طور پر تقسیمِ ہند کے دوران عورت کی حیثیت مظلوم، محکوم اور قربانی کا استعارہ بن گئی۔ ان کے افسانے جیسے “ٹھنڈا گوشت”، “کھول دو”، “بو”، “لائسنس” اور دیگر میں عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم، استحصال اور اس کے نفسیاتی کرب کو بے حد تلخ مگر حقیقت پسندانہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔ منٹو کے ہاں عورت نہ تو مکمل طور پر کمزور ہوتی ہے اور نہ ہی محض ایک جذباتی مخلوق، بلکہ وہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے، جو اپنی فطری خواہشات، مجبوریاں، تضادات اور قوتِ مدافعت کے ساتھ زندگی گزارتی ہے۔ ان کے افسانے مردانہ حاکمیت کے تحت عورت کی مظلومیت، بازارِ حسن میں عورت کے استحصال، خاندانی روایات میں جکڑی ہوئی عورت کی نفسیاتی کشمکش، اور سیاست و سماج کے ہاتھوں برباد ہونے والی عورت کی بے بسی کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے افسانے “کھول دو” میں عورت کے ساتھ تقسیمِ ہند کے دوران ہونے والے مظالم کی لرزہ خیز تصویر کشی کی گئی ہے، جہاں ایک بے بس لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ اس حد تک بے حس ہو چکی ہوتی ہے کہ جب ڈاکٹر کہتا ہے “کھول دو”، تو وہ لاشعوری طور پر اپنا ازار بند کھول دیتی ہے۔ اسی طرح “ٹھنڈا گوشت” میں عورت کی وفاداری اور انتقام کے جذبے کو منفرد انداز میں دکھایا گیا ہے، جہاں ایک عورت اپنے محبوب کی بے وفائی پر اس کو ایسی سزا دیتی ہے جو روایتی بیانیے سے بالکل ہٹ کر ہے۔ منٹو کے افسانوں میں عورت کی مظلومیت کے ساتھ ساتھ اس کی فطری جبلّت اور خود مختاری کا پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے، جیسے “بو” میں، جہاں ایک عام عورت کی جسمانی کشش کو نہایت سادہ مگر تہہ دار انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ منٹو عورت کو نہ تو مثالی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں، نہ ہی اسے مکمل معصوم دکھاتے ہیں، بلکہ وہ عورت کو زندگی کی حقیقتوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں، جہاں وہ کبھی مظلوم، کبھی باغی، کبھی محض ایک انسان، اور کبھی محض جسم بن کر رہ جاتی ہے۔ ان کے نزدیک عورت کا مسئلہ صرف مرد کے ظلم تک محدود نہیں بلکہ پورا سماجی ڈھانچہ اور روایتی اقدار بھی عورت کو جبر کا شکار بناتی ہیں۔ بیسویں صدی میں جب سیاست اور سماج مسلسل بدل رہے تھے، منٹو کے افسانے عورت کے لیے ایک آئینہ بنے، جس میں نہ صرف اس کی بے بسی بلکہ اس کے اندر پنپنے والی بغاوت، اس کا وقار، اس کی جسمانی و نفسیاتی کشمکش، اور اس کی معاشرتی بے دخلی کو بھی حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو کا عورت کا تصور نہایت جاندار، حقیقت پر مبنی اور جذباتی لفاظی سے پاک ہے، جو انہیں دیگر ادیبوں سے ممتاز بناتا ہے۔