جدید اردو نظم، اردو ادب کی ایک اہم صنف ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی اور آج تک ارتقا پذیر ہے۔ اس صنف نے روایتی اردو شاعری کے مضامین، اسالیب اور ہیئتوں سے انحراف کرتے ہوئے نئے موضوعات، تجربات اور اظہار کے طریقوں کو اپنایا ہے۔ جدید نظم، معاشرتی تبدیلیوں، سیاسی بیداری، اور فرد کی داخلی کیفیات کو بیان کرنے کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ جدید اردو نظم میں موضوعات کی وسعت بہت زیادہ ہے۔ روایتی شاعری میں عشق، حسن، اور تصوف جیسے موضوعات پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی، لیکن جدید نظم میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں سیاسی اور سماجی مسائل، طبقاتی کشمکش، جنگ و امن، انسانی حقوق، سائنس اور ٹیکنالوجی، اور ماحولیات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، جدید نظم میں فرد کی تنہائی، بے معنویت، شناخت کا بحران، اور وجودی مسائل کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ جدید اردو نظم میں اسالیب کی بھی تنوع پائی جاتی ہے۔ روایتی شاعری میں غزل اور مثنوی جیسی مخصوص ہیئتوں کا استعمال ہوتا تھا، لیکن جدید نظم میں آزاد نظم، نثری نظم، اور معرا نظم جیسی نئی ہیئتوں کو اپنایا گیا ہے۔ ان ہیئتوں نے شاعروں کو اظہار کی زیادہ آزادی فراہم کی ہے۔ اس کے علاوہ، جدید نظم میں علامتیت، تجریدیت، اور تاثریت جیسے اسالیب کا استعمال بھی عام ہے۔ جدید اردو نظم کے اہم شعرا میں میرؔاجی، ن۔ م۔ راشدؔ، فیض احمد فیضؔ، مجید امجدؔ، اختر الایمانؔ، اور منیر نیازیؔ شامل ہیں۔ ان شعرا نے اپنی تخلیقات سے جدید اردو نظم کو ایک نئی شناخت عطا کی۔ میرؔاجی نے جنسی نفسیات اور اساطیری موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی، ن۔ م۔ راشدؔ نے سیاسی اور سماجی مسائل کو علامتی انداز میں بیان کیا، فیض احمد فیضؔ نے انقلاب اور آزادی کے موضوعات پر لکھا، مجید امجدؔ نے دیہاتی زندگی اور فطرت کی عکاسی کی، اختر الایمانؔ نے فرد کی تنہائی اور بے معنویت کو موضوع بنایا، اور منیر نیازیؔ نے رومانی اور جمالیاتی تجربات کو اپنی شاعری میں پیش کیا۔جدید اردو نظم پر مختلف زاویوں سے تنقید کی گئی ہے۔ بعض نقادوں نے اس پر روایتی اقدار سے انحراف کرنے اور مغرب کی نقالی کرنے کا الزام لگایا ہے۔ تاہم، بیشتر نقادوں نے جدید نظم کو اردو ادب کی ایک اہم اور ترقی پسند صنف قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، جدید نظم نے اردو شاعری کو نئے موضوعات، اسالیب اور تجربات سے روشناس کرایا ہے، اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔جدید اردو نظم، اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ اس صنف نے نہ صرف اردو شاعری کو وسعت اور گہرائی عطا کی ہے، بلکہ اس نے معاشرے اور فرد کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ کو بھی بڑھایا ہے۔ جدید نظم کا مطالعہ ہمیں اپنے عہد کے مسائل اور چیلنجوں سے آگاہ کرتا ہے، اور ہمیں ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے ترغیب دیتا ہے۔